یاداشت

یاداشت “
میں بھول جاتا ہوں کے زندگی کہاں پڑی ہے
میں نے خواب کہا رکھا تھا
میں نے نظم کہاں پڑھی تھی
کتاب کہاں رکھی ہے

میں بھول جاتا ہوں
کس نے مُجھ سے مُحبت کا اظہار کیا تھا
کس نے میرا انتظار کیا تھا

مُجھے یاد نہیں رہتا تُمہاری تصویر دیکھتے ہوٸے
میرے آنسو کہاں گرے
میرے ہنسی کہاں پھوٹی

میری آنکھوں میں کس نے دیکھا ہے
میرے جسم کو کس نے چھوا تھا
کس نے ساتھ چلنے کا عہد کیا کون رستے پہ چھوڑ گیا
کس نے مُجھے زخم بخشے
کون میرا دل توڑ گیا
میں بھول جاتا ہوں

عثمان نقوش

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *