تیری تصویر اگر خون میں تر مل جائے
ہجر کی آگ میں جلنے کا ہنر مل جائے
کاش اس شہر میں آنے کا ہو مقصد پورا
کاش اس سے میری اک بار نظر مل جائے
میں جو دیکھوں تیری تصویر بہت دیر تلک
میری نظروں کو بھی صحرا کا سفر مل جائے
بھاگ جائیں گے فلک تجھ سے بغاوت کر کے
چاند تاروں کو اگر چاند نگر مل جائے
عمر بھر ہجر کو جھیلا ہے بہت صبر کے ساتھ
مجھ کو اب میری مشقت کا ثمر مل جائے
چھوڑ ہی دینگے میاں بعد میں ہم دربدری
ہم فقیروں کو اگر آپ کا در مل جائے
ایسے ملتی ہے تری یاد میرے دل سے گمان
جیسے صحرا میں مسافر کو شجر مل جائے
یاسر گمان