پطرس کی مزاح نگاری
انگریزی شاعر نامس گرے کی شہرت کا دارو مدار صرف ایک نظم پر ہے۔ یہ نظم دراصل مرضیہ ہے ان غیر معروف لوگوں کا جو شہرت و ناموری سے محروم رہے۔ اہل نظر کا خیال ہے کہ یہ نظم تو کیا اس کا صرف ایک بند بھی شاعر کا نام زندہ رکھنے کو کافی تھا۔ اس لیے کہا گیا کہ کوئی فن کار اتنا کم سرمایہ اپنی بغل میں دبائے بقائے دوام کے دربار میں داخل نہیں ہوا جتنا نا مس کرے۔ اردو ادب پر نظر ڈالیے تو یہی بات پطرس پر لفظ بہ لفظ صادق آتی ہے۔ انھوں نے بہت کم لکھا مگر جو کچھ لکھا وہ ہے بے حد انتخاب اور رہتی دنیا تک اردو ادب میں ان کا نام زندہ رکھنے کو کافی ہے۔
۔
فتنی تکمیل کو پطرس بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ اعلا تعلیم سے بہرہ ور تھے مطالعہ وسیع تھا اور کاملان فن کے سہارے ان کی نظر میں تھے۔ مزاح نگاری کی دادی میں قدم رکھنے سے پہلے ان کا محبوب مشغلہ نئے فن کاروں کی تخلیقات کو توجہ سے سنتا اور کھری راے دینا تھا۔ یہ راے اتنی بے باک اور کھری ہوتی تھی کہ
بالعموم بے دردی کا رنگ پیدا ہو جاتا تھا اور نو آموز اپنی تصانیف ان سے چھ تھے۔ امتیاز علی تاج نے ایک بار ایسا ہی کیا تو پطرس نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا میں تمہاری تحریروں کو دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں کی تحریروں کے ہم پلہ دیکھنا چاہتا ہوں اس لیے میری خواہش ہے کہ اس میں کوئی خامی باقی نہ رہے۔” جو دوسروں کی تحریر ایسی کڑی کسوٹی پر پر کھتا ہو، تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی تصنیف پر کتنا خون جگر صرف کرتا ہوگا۔ فنی تکمیل پطرس کی تمام تحریروں کا بنیادی وصف ہے۔ مزاح نگاری کی طرف انھوں نے بعد کو توجہ کی سنجیدہ مضمون پہلے لکھے ۔ اس سے قلم کی گرہ کھلی اور زبان و بیان پر عبور حاصل ہوا ۔
خالص مزاح پطرس کی خاص جولاں گاہ ہے۔ مزاح نگاری طنز نگاری سے زیادہ دشوار اور اس سے کہیں زیادہ نرم و نازک شے ہے۔ اس کے لیے اعلا ظرف بلند حوصلہ فراخ دل اور ہر روانہ نقطہ نظر در کار ہے۔ یہ کام اس کے بس کا ہے جو زندگی کی خامیوں اور ناہمواریوں پر چراغ پا نہ ہو ان پر خوش دلی سے بنے کی ہمت رکھتا ہو، جھنجھلانے کے بجائے انھیں فلسفیانہ زاویہ نظر سے دیکھنے کے ظرف سے بهره یاب ہو۔ ہمارے ادب میں یہ کمیاب دولت پطرس سے پہلے صرف غالب کو یب ہوئی۔ غموں کو انگیز کرنے بلکہ ان پر مسکرا دینے کا جو حوصلہ غالب میں تھا وہ کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ خط میں جسم کے پھوڑوں کا ذکر کرتے ہیں تو لگتا ہے پھولوں بھرے باغ کی سیر کرا رہے ہیں۔ یہی معالمہ پطرس کا ہے۔ غالب کی طرح ان کی زندگی کے آخری ایام بھی سخت علالت میں گزرے مگر کبھی حرف شکایت لبوں تک نہ آیا ۔ تحریروں کا بھی یہی حال ہے۔ ہر طرف شگفتگی ہی شگفتگی نظر آتی ہے۔
آپ اپنا نشانہ بننا ظرافت نگار کے لیے مشکل ضرور ہے لیکن اعلا درجے کی ظرافت اسی تکنیک سے وجود میں آتی ہے۔ کوئی ہم پر ہے تو ہم ضرور تبرا مانیں گے لیکن وہ اپنی ذات پر ہے تو ہم لازمی طور پر محفوظ ہوں گے۔ کوئی ہم سے کہیے کہ آپ حسینوں کو چاہتے ہیں مگر آئینے میں ذرا اپنی صورت تو ملاحظہ فرمائیے تو ہم کبھی کہنے والے کی صورت دیکھنے کے روادار نہ ہوں گے لیکن جب غالب فرماتے ہیں
که:
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
تو ہم کھل اٹھتے ہیں۔ پطرس کی نظر میں عالمی ادب کے تمہارے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ واحد متکلم کا استعمال ظرافت کا نہایت کامیاب حربہ ہے۔ پھر وہ اس حربے کو کام میں کیسے نہ لاتے۔ ان کے مضامین مرحوم کی یاد میں ، مرید پور کا پیر سویرے جو کل آنکھ میری کھلی کتے، ہاسٹل میں پڑھنا میں ایک میاں ہوں۔ سب
میں اپنی ظرافت کا نشانہ وہ آپ ہی ہیں۔
خیال کی ندرت سے پطرس ظرافت پیدا کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ خیال کا اچھوتا پن کوئی ایسا واقعہ جو قاری کو ہنسائے اسے محظوظ کرے یا کوئی ایسی بات جسے سُن کر قاری کے ذہن میں گدگدی پیدا ہوں اور وہ ہنس پڑے۔ یہ وہ طریقہ ہے
جسے پطرس اختیار کرتے ہیں۔ ظرافت پیدا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ لفظوں کے الٹ پھیر سے یا واقعے ہے۔ جس ظرافت کا دارو مدار محض لفظوں پر ہوتا ہے وہ معمولی درجے کی ظرافت کہلاتی ہے۔ اعلا درجے کی ظرافت وہ ہے جو خیال کے اچھوتے پن سے یا کسی دلچسپ واقعے کے بیان سے پیدا کی جائے۔ لیکن ان دونوں کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ ظرافت ہی پر کیا منحصر ہے سارا ادب لفظوں کے سہارے ہی وجود میں آتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں کو کس طرح الگ کیا جائے اور کیسے پہچانا جائے که ظرافت لفظوں کے استعمال سے پیدا ہوئی یا دلچسپ واقعے کے بیان ہے۔ اس کی کسوٹی یہ ہے کہ لفظوں کو بدل کر دیکھا جائے۔ اگر لفظ بدل دینے کے باوجود نہیں آئے تو سمجھ لینا واقعے میں ہیے کہ واقعے کے بیان سے ظرافت پیدا ہوتی ہے۔ انوکھا پن پیدا کر دیا جائے تو یہی خیال کی ندرت ہے۔ پطرس اس طرح کے واقعات پیش کرتے ہیں کہ لامحالہ ہنسی آجاتی ہے۔ مثال کے ذریعے ہم اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ” مرحوم کی یاد میں پطرس کا مشہور مزاحیہ مضمون ہے۔ مرزا صاحب اپنی پرانی از کار رفته با یک کل مصنف کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ اس کے انجر پنجر ایسے ڈھیلے ہیں کہ ہر پرزہ بجتا ہے سوائے گھنٹی کے۔ آخر وہ اسے بیچ کر چھٹکارا پانے کے لیے دکاندار کے پاس نے جاتے ہیں۔ پھر جو کچھ پیش آتا ہے وہ پطرس کی زبانی سنیے۔ دکاندار نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ مجھے یہ محسوس ہوا جیسے مجھے پر چوری کا شبہ کر رہا ہے۔ پھر بائیسکل کو دیکھا۔ پھر مجھے دیکھا۔ پھر بائیسکل کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آدمی کون سا ہے اور بائیسکل کون سی ہے۔ یہاں سارا لطف واقعے میں ہے لفظوں میں نہیں۔ لفظ بدل دیجے تو بھی ہنسی نہیں رک سکے گی۔
لفظوں
کا انتخاب صرف طنز و ظرافت ہی میں نہیں بلکہ پورے ادب میں نہایت اہم رول ادا کرتا ہے۔ لفظوں کے انتخاب کا پطریں کو بڑا سلیقہ ہے۔ تصنیفی زندگی کے آغاز میں انھوں نے اس پر بہت محنت کی تھی۔ ہم عصر نو آموز فن ما کاروں کو بھی وہ اس کی ترغیب والا یا کرتے تھے۔ غور و فکر اور مسلسل مشق نے انھیں لفظوں کا پارکھ بنا دیا تھا۔ سیہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اعلا درجے کا ادب نہ صرف بہترین لفظوں سے وجود میں آتا ہے نہ صرف بلند خیال ہے۔ کامیاب ادب پارہ نتیجہ ہے خیال اور لفظ دونوں کے ایک دوسرے میں سما جانے کا دونوں کے اس طرح آپس میں کتھ سما جانے کا کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہ کیا جا سکے۔ پطرس کو یہ ہنر آتا ہے۔ نمونے
کے طور پر ملاحظہ فرمائیے ” مضامین پطرس کے دیباچے کا یہ اقتباس : اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ آپ نے چیوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔
فکر انگیزی یعنی فکر کو بیدار کرنا اعلا درجے کے ادب کی ذمہ داری ہے بشرطیکہ اس عمل کے ساتھ ساتھ وہ قاری کو محظوظ بھی کرے۔ حظ یا لطف و انبساط جتنا ظرافت سے حاصل ہوتا ہے وہ ادب کے کسی اور روپ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ میریڈ تھا کا قول ہے کہ “کامیاب ظرافت وہ ہے جو ہنسائے لیکن ساتھ ہی فکر کو بیدار بھی کرے۔ پطرس زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو چنتے ہیں ان میں مطور خیری کا پہلو تلاش کرتے ہیں اور انھیں ایسے پر لطف انداز سے پیش کر دیتے ہیں کہ قاری پڑھتے پڑھتے اپنے اور بنتے بنتے سوچنے لگتا ہے۔ یہ ان کے فن کی عظمت کی
دلیل ہے۔
“مرحوم کی یاد میں ” بے حد دلچسپ مضمون ہے لیکن اس سے یہ عرفان بھی حاصل ہوتا ہے کہ مرزا کے پردے میں ہزار ایسے چالاک لوگ ہیں جو دوستی کی آڑر میں بھولے بھالے لوگوں کو ٹھگ لیتے ہیں۔ ” مرید پور کا پیر اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ تقریر کی صلاحیت یاد داشتوں کی شکل میں جیب کے اندر نہیں دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ سویرے جو کل آنکھ میری کھلی” سے جفاکشی کی تعلیم ملتی ہے۔
عیل اوبر میں ” سے خلوص و راست گوئی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس سلسلے کی آخری مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ کامیاب فن پارہ فکر کو بیدار ضرور کرتا ہے مگر اس طرح کہ اس پر پند و نصیحت یا لکچر بازی کا شائبہ تک نہیں ہو تاکہ پطرس کی مزاح نگاری کا یہی آرٹ ہے۔
پیروڈی کو ہماری زبان میں ”تحریف ” کہتے ہیں۔ تحریف کے معنی ہیں الٹ دیتا۔ کسی تصنیف کو اس طرح الٹ دیتا یعنی لفظوں کی الٹ پھیر کرتا یا مواد میں ایسا پھیر بدل کرنا کہ اس تصنیف کی ایک مضحکہ خیز صورت سامنے آجائے۔ پہلی نظر میں اس پر اصل تصنیف کا دھوکا ہو مگر پڑھیں تو محسوس ہو کہ اس کی صورت اس طرح بگا ڑدی گئی ہے کہ دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ گویا تحریف کسی تصنیف کی نقل ہوتی ہے
عمر مسخ شدہ
پطرس نے دو پیروڈیاں بھی لکھیں۔ یہ ہیں اردو کی آخری کتاب ” اور لاہور کا جغرافیہ کسی زمانے میں پنجاب کے محکمہ تعلیم نے محمد حسین آزاد سے اردو ریڈرز تیار کرائی تھیں۔ سرورق پر ماں بچے کو گود میں لیے بیٹھی ہے۔ اس لیے سب اسے ماں بچوں کی کتاب کہنے لگے۔ پطرس نے اس کتاب کی پیروڈی “اردو کی آخری کتاب” کے نام سے کی جو بے حد پسند کی گئی۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے ”ماں بچے کو لیے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چوس رہا ہے اور دیکھ دیکھ کو خوش ہوتا ہے۔” اہور کا جغرافیہ “ ایک ایسی پیروڈی ہے جس ہیں کا لطف وہی اٹھا۔
جنھوں نے پرانے زمانے کی درسی کتابوں میں لاہور کے جغرافیے پر کوئی سبق پڑھا ہو ۔ بالکل وہی انداز وہی الفاظ بس مواد مضحکہ خیز ہو جاتا ہے۔ نمونہ دیکھیے :
آب و ہوا : لاہور کی آب و ہوا کے متعلق طرح طرح کی روایت مشہور ہیں جو تقریبا سب غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ باشندوں نے حال ہی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اور شہروں کی طرح ہمیں بھی کچھ آب و ہوا دی جائے لیکن بد قسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی۔ اس لیے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ مفاد عامہ کے پیش نظر اہل شہر ہوا کا بے جا استعمال نہ کریں بلکہ جہاں تک ہو سکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چنانچہ لاہور میں عام ضروریات کے لیے ہوا کی بجاے کرو اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جابجا دھویں اور گرد کے مہیا کرنے کے لیے لاکھوں مرکز کھول دیے ہیں۔
پطرس بخاری ہماری زبان کے بلند پایہ فن کار ہیں۔ ندرت و نفاست ان کی تحریروں کی خصوصیت ہے۔ خالص مزاح نگاری میں آج تک اردو میں کوئی ان کی ہمسری نہیں کر سکا۔ یقین ہے کہ ان کی ظریفانہ تحریر میں ہماری آنے والی نسلوں کو سرور و انبساط کی لازوال دولت عطا کرتی رہیں گی۔
تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار