دہلی کالج
وہلی علم و داب کا مرکز اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہی ہے۔ اس شہر کے کئی اداروں نے ملک میں علم کا اُجالا پھیلایا۔ ان ہی اداروں میں سے ایک دہلی کالج ہے۔ یہ کالج ۱۸۲۵ء میں اجمیری دروازے کے باہر اس عمارت میں قائم ہوا جہاں ۱۷۱۰ء سے ۱۸۲۲ء تک مشرقی انداز کی ایک درس گاہ مدرسہ غازی الدین قدیم طرز کی تعلیم میں مشغول رہی۔ اسے نواب غازی الدین فیروز جنگ اول صوبه دار گجرات کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ ۱۷۱۰ء میں ان کی وفات ہوئی تھی۔
ملک میں ابتری پھیلی تو مدرسہ غازی الدین بھی اس سے متاثر ہوا۔ مالی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور طلبا کی تعداد گھٹتے گھٹتے ۱۸۲۳ء میں صرف نو رہ گئی۔ مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ ہندوستان میں انگریزوں کے قدم جمتے گئے۔ انگریزی فوج نے ۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک کی سرکردگی میں مرہٹوں کی سرکوبی کے بعد دہلی میں امن و امان بحال کر دیا تو تعلیم کی طرف بھی توجہ ہوئی۔ ۱۸۱۳ء کے چارٹر کے مطابق برطانوی ہند میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک لاکھ روپے سالانہ کی رقم منظور کی گئی مگریہ تجویز صرف کاغذ پر ہی رہی۔ ۱۸۲۳ء میں مجلس تعلیم عامہ کی جانب سے ایک سرکلر جاری ہوا جس میں تجویز کیا گیا کہ دہلی میں جدید انداز میں تعلیم کے لیے ایک کالج قائم کیا جائے۔ ۱۸۲۴ء میں دہلی کی مقامی مجلس تعلیم نے جوابی مراسلہ شائع کیا اور اس تجویز کو سراہا اور واضح کیا کہ ساڑھے تین ہزار روپے سالانہ اس مد میں صرف کیے جاسکتے ہیں۔ آخر کار طے پایا کہ مدرسہ غازی الدین کی عمارت کو اس کام کے لیے استعمال کیا بجائے اور دہلی کالج وہیں قائم کر دیا جائے چنانچہ ۱۸۲۵ء میں اس کالج کا افتتاح ہو گیا۔ ایچ۔ ٹیلر مقامی مجلس اور ساتھ ہی کالج کے سکریٹری تھے۔ انھیں کالج
کا قائم مقام پر سپل مقرر کیا گیا۔ ایک سو پچھتر رو سے تنخواہ مقری ہوئی جو کچھ دنوں کے بعد بڑھ کر تین سو ہو گئی۔ مگر ان کے سپرد بہت سے کام تھے اس لیے وہ کالج کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کرپاتے تھے۔ آخر کار انھیں باقی ذمہ داریوں سے سبک دوش کر کے ۱۸۳۷ء سے باقاعدہ پر نسپل مقرر کر دیا گیا اور تنخواہ بڑھا کر آٹھ ہو روپے مہینہ کردی گئی۔ اب کالج تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ درس و تدریس کے ! بیڈ مولوی اور متعدد مولوی مقرر کیے گئے۔ طلبا کے لیے بہت سے وظیفے جاری کیے گئے تاکہ وہ یکسوئی سے تعلیم کی طرف توجہ کر سکیں۔
تین برس یعنی ۱۸۲۵ء سے ۱۸۲۸ء تک یہ کالج اسی نہج پر چلتا رہا لیکن ریزیڈنٹ کمشنر سرچارلس مٹکاف کے حکم سے ۱۸۲۸ء میں انگریزی کا شعبہ قائم کیا گیا جس سے ہندوستانیوں کی بدگمانی میں اضافہ ہوا اور یہ خیال پختہ ہو گیا کہ انگریز حاکم ہندوستانیوں کو عیسائی بنادینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بد گمانی کے باوجود کالج ترقی کرتا رہا۔ یہ فائدہ ضرور ہوا کہ انگریزی شعبے کے اثر سے مشرقی شعبہ مفید علوم کی طرف بھی متوجہ ہوا۔ اس شعبے میں عربی، فارسی، فلسفہ اور منطق کے ساتھ سائنس ، ریاضی، تاریخ، قانون اور دیگر جدید علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ ذریعہ تعلیم ہندوستانی یعنی اردو تھا۔
لارڈ ولیم بنٹنگ نے ۱۸۳۵ء میں تین نئے احکام جاری کیے۔ سائنس اور مغربی ادب کی تعلیم انگریزی زبان میں دی جائے ، وظیفے بند کر دیے جائیں ، مشرقی زبانوں میں کتابوں کی تیاری و ترجمے کا کام موقوف کیا جائے۔ لارڈ مکالے ولیم بٹنگ کے دست راست تھے۔ دونوں کا وار اردو زبان پر تھا۔ پورا برطانوی ہندان کی پالیسی سے متاثر ہوا لیکن دہلی کالج میں طریق تعلیم بدستور جاری رہا۔ آخر لارڈ آکلینڈ نے پچھلی پالیسی کو رد کردیا۔ انھوں نے مشرقی : ارس میں مشرقی طرز تعلیم کو ترجیح دینے کا حکم دیا اور وظائف بحال کر دیے۔
لارڈ آکلینڈ کی نئی پالیسی کے تحت مسٹر ٹیلر کی سربراہی میں اسکول ٹیک سوسائٹی ” قائم کی گئی جس نے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں بہت سی مفید کتابیں تیار کرائیں۔ دہلی کالج کے فروغ میں مسٹر ٹیلر کی کوششوں کو بڑا دخل تھا۔ انھوں نے بڑے خلوص اور بہت دیانت داری سے کالج اور اس کے ساتھ ہی ہندستانی زبانوں کی خدمت کی۔ ۱۸۳۹ء میں ان کی جگہ ایک فرانسیسی ماہر تعلیم مسٹرایف بترو پرنسپل مقرر ہوئے۔ انھوں نے مسٹر ٹیلر سے بھی بڑھ کر کالج کی خدمت کی۔ وہ ایک عالم ذہین اور وسیع النظر انسان تھے۔ ان کے زمانے میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ اس وقت تک دہلی کا انتظام احاطہ بنگال کے تحت تھا۔ ۱۸۴۳ء میں صوبہ شمالی و مغربی بشمول دہلی کو احاطہ بنگال سے الگ کر کے آگرہ کے تحت کر دیا گیا۔ اس طرح صوبے کے مدرسے اور دہلی کالج صوبہ شمالی و مغربی کے لفٹیننٹ گورنر کے ماتحت ہو گئے۔ اس عہدے پر اس وقت مسٹر نامسن مامور تھے۔ انھوں نے انگریزی اسکول بند کر کے اردو کے اسکول قائم کر دیے۔ دہلی کالج کی علاحدہ کمیٹی مقرر ہوئی۔ سب سے کردیے۔ بڑا کام یہ ہوا کہ ایک ورنا کولر سوسائٹی قائم ہوئی جس نے ترجمے کی طرف خاص توجہ کی کتابوں کی تیاری میں ماسٹر رام چندر نے قابل قدر خدمات انجام دیر
ماسٹر رام چندر کا وطن دہلی تھا۔ ہمیں ۱۸۲۱ء میں ولادت ہوئی۔ ۱۸۴۱ء میں دہلی کالج میں داخلہ لیا جہاں انھیں میں روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۱۸۴۵ء میں دہلی کالج سے وابستہ ہو گئے۔ تنخواہ ڈیڑھ سو روپے ماہانہ تھی۔ وہ مشرقی شعبے میں سائنس کے استاد تھے۔ ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون تھا۔ اس کی جدید شاخوں پر اردو میں کتابیں موجود نہیں تھیں۔ ماسٹر رام چندر نے یہ کتابیں لکھ کر اردو کے دامن کو وسیع کیا۔ ان کے علمی کارناموں کو ہر طرف سراہا گیا اور سرکار نے انھیں انعام و اکرام سے نوازا۔ محمد حسین آزاد منشی ذکاء اللہ اور مولوی نذیر احمد جیسے نامور ادیب ما سٹر رام چندر کی شاگردی پر ہمیشہ فخر کرتے رہے۔ ورنا کولر سوسائٹی اس کالج کا سب سے اہم حصہ تھی۔ اس سوسائٹی کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس سوسائٹی کی طرف سے کم سے کم ۲۸ کتابیں شائع ہوئیں۔ اس کی خدمات فورٹ ولیم کالج سے کسی طرح کم نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دہلی کالج کے علمی کارنامے فورٹ ولیم کالج کے کاموں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ فورٹ ولیم کالج میں زیادہ توجہ قصوں اور داستانوں پر رہی جب کہ دہلی کالج کا سارا زور علمی کتابوں پر تھا اور اردو میں اس کی زیادہ ضرورت تھی۔ آگے چل کر سرسید کی سائنٹی فک سوسائٹی“ نے دہلی کے اس علمی کام کو
آگے بڑھایا۔
کالج کے اساتذہ میں ماسٹر رام چندر مولانا امام بخش صہبائی ، مولوی مملوک العلی مولوی کریم الدین، منشی شیو نزائن، آرام رام کشن دھرم نرائن کے نام اہم ، ہیں۔ ان اصحاب نے درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی نام کمایا۔ بو
کالج کے سربراہ ایسے نامور لوگ رہے جن سے کالج کے وقار میں اضافہ ہوا۔ مسٹر ٹیلر کے بعد مسٹر بہترہ اور ان کے بعد ممتاز مستشرق اسیر نگر نے کالج کی سربراہی کی ذمہ داری قبول کی۔ ان کے زمانے میں طلبا کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا تھا اور کالج کی عمارت ناکافی محسوس ہوتی تھی۔ چنانچہ اسپر نگر کے زمانے میں کالج کو اجمیری دروازے کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ ۱۸۵۷ء تک یہ کالج ای
عمارت میں رہا۔
سائنس کی اردو میں تعلیم اس کالج کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔
احمد جیسے نامور ادیب ما سٹر رام چندر کی شاگردی پر ہمیشہ فخر کرتے رہے۔
ورنا کولر سوسائٹی اس کالج کا سب سے اہم حصہ تھی۔ اس سوسائٹی کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس سوسائٹی کی طرف سے کم سے کم ۲۸ کتابیں شائع ہوئیں۔ اس کی خدمات فورٹ ولیم کالج سے کسی طرح کم نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دہلی کالج کے علمی کارنامے فورٹ ولیم کالج کے کاموں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ فورٹ ولیم کالج میں زیادہ توجہ قصوں اور داستانوں پر رہی جب کہ دہلی کالج کا سارا زور علمی کتابوں پر تھا اور اردو میں اس کی زیادہ ضرورت تھی۔ آگے چل کر سرسید کی سائنٹی فک سوسائٹی“ نے دہلی کے اس علمی کام کو
آگے بڑھایا۔
کالج کے اساتذہ میں ماسٹر رام چندر مولانا امام بخش صہبائی ، مولوی مملوک العلی مولوی کریم الدین، منشی شیو نزائن، آرام رام کشن دھرم نرائن کے نام اہم ، ہیں۔ ان اصحاب نے درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی نام کمایا۔ بو
کالج کے سربراہ ایسے نامور لوگ رہے جن سے کالج کے وقار میں اضافہ ہوا۔ مسٹر ٹیلر کے بعد مسٹر بہترہ اور ان کے بعد ممتاز مستشرق اسیر نگر نے کالج کی سربراہی کی ذمہ داری قبول کی۔ ان کے زمانے میں طلبا کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا تھا اور کالج کی عمارت ناکافی محسوس ہوتی تھی۔ چنانچہ اسپر نگر کے زمانے میں کالج کو اجمیری دروازے کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ ۱۸۵۷ء تک یہ کالج ای
عمارت میں رہا۔
سائنس کی اردو میں تعلیم اس کالج کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔
کالج کی تجربہ گاہیں جدید ساز و سامان سے لیس تھیں اور اساتذہ اردو میں کامیابی کے ساتھ سائنس کی تعلیم دیتے تھے۔ حسب ضرورت طلبا کو تجربے کر کے دکھائے سائنس کی کامیاب تعلیم کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اگر یہ
جاتے تھے ۔ مادری زبان میں
سلسلہ جاری رہتا تو ملک کی تعلیم کا نقشہ آج کچھ اور ہی ہوتا۔
اسپر نگر کے بعد مسٹر کار گل اور ان کے بعد ۱۸۵۴ء میں مسٹر ٹیلر دوبارہ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے زمانے میں وہی کالج کے سربراہ تھے۔ باغیوں نے ان کی جان نے لی اور کالج کا ہندوستانی عملہ انھیں بچا نہیں سکا۔ کے والد محمد باقر کے سرنگا اور انھیں موت کی
ن کے قتل کا الزام مولوی محمد حس
سزا دی گئی۔
شورش فرو ہو جانے کے بعد ۱۸۶۴ء میں دہلی کالج دوبارہ کھلا لیکن زیادہ دنوں باقی نہ رہ سکا۔ ۱۸۷۷ء میں اس کالج کو بند کر دیا گیا۔ دہلی کالج نے بہر حال یہ تو ثابت کر ہی دیا کہ ہندوستانی طلبا جدید علوم کا ذوق رکھتے تھے اور صحیح رہنمائی جاری رہتی تو زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ان میں موجود تھی۔ دوسری بات یہ ثابت ہو گئی کہ اردو زبان میں سائنس کی تعلیم دی جاسکتی ہے اور اس کے حوصلہ افزا نتیجے برآمد ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ کالج باقی رہتا تو ہندوستان اور اردو دونوں کو اس
سے فائدہ پہنچتا۔
تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار