محمد حسین آزاد
اردو کے بلند پایہ نثر نگاروں میں مولوی محمد حسین آزاد کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے تقریباً ساٹھ برس تصنیف و تالیف میں بسر کیے آب حیات و نیرنگ خیال جیسی لافانی کتابیں لکھ کر شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں ہمیشہ کے لیے اپنا مقام محفوظ کر لیا ۔ تنقید ، تاریخ تاریخ ادب ” لسانیات” تمثیل ۔۔۔ ان کے قلم نے مختلف میدانوں میں اپنے جوہر دکھائے اور مندرجہ بالا دو کتابوں کے علاوہ دربار اکبری، سخندان فارس وغیرہ بھی تصنیف کیں لیکن ان کی شہرت کا اصل مدار انہی دو کتابوں پر ہے۔ ان دونوں کتابوں کا مختصر تعارف یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
—
: آب حیات شعراے اردو کا تذکرہ بھی ہے ادب کی تاریخ بھی اور سب سے بڑھ کر اردو شاعروں کے منہ بولتے مرقعوں کا البم بھی۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۸۸۰ء میں شایع ہوئی لیکن اس کی تیاری بہت پہلے شروع ہو گئی تھی۔ یہ کتاب مصنف کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے ۔ اس کی تیاری کا سلسلہ تقریباً پندرہ سال جاری رہا اس دوران آزاد مواد جمع کرتے رہے۔ مواد کی فراہمی کے تین ذریعے تھے۔ مطبوعہ اور قلمی کتابوں سے جو کچھ مل سکا انھوں نے وہ سب جمع کیا لیکن یہ ناکافی تھا۔ مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے آزاد نے پرانے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے جو کچھ بتایا اسے قلمبند کیا۔ اس کے بعد جہاں جہاں خلا نظر آیا اسے پُر کرنے کے لیے اہل علم سے خط و کتابت کے ذریعے حالات دریافت کیے۔ بعض لوگوں نے مختلف شاعروں پر مضامین لکھ کر آزاد کو بھیجے۔ ان تینوں ذریعوں سے معلومات کا جو ذخیرہ فراہم ہوا آزاد نے اسے اپنے جادو نگار قلم سے اپنی زبان میں لکھا اور ” آب حیات” کے نام سے ایک ایسی کتاب تیار کردی جسے اردو ادب میں حیات جاوداں حاصل ہوئی ۔
آب حیات سے بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن کی کسی اور ذریعے سے تصدیق نہیں ہوتی۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے۔ جن بزرگوں نے آزاد کو بہت سے حالات بتائے وہ گواہی دینے کے لیے آج اس دنیا میں موجود نہیں۔ جن کتابوں سے مصنف نے استفادہ کیا تھا ان میں سے کچھ زمانے کے ہاتھوں برباد ہو گئیں۔ مثلاً قدرت اللہ قاسم کا تذکرہ مجموعہ “نغز ” جو ایک عرصے تک گوشہ گمنامی میں رہا اور جب دستیاب ہوا تو پتا چلا کہ آزاد نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔ اہل قلم نے جو حالات لکھ کر بھیجے تھے ، وہ بھی محفوظ نہ رہے۔ چند اب مل گئے ہیں۔ مثلا مولانا حالی نے مومن کے حالات لکھ کر بھیجے تھے۔ وہ کراچی میں جناب مشفق خواجہ کے پاس موجود ہیں۔ بہرحال ایک عرصے تک آزاد پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ بہت سے قصے انھوں نے اپنی طبیعت سے گھڑ کر لکھ دیے ہیں۔ آزاد اس الزام سے کلیتا تو بری نہیں ہوئے لیکن کچھ قلمی کتابیں اور مسودے مل جانے کے بعد یہ الزام کسی حد تک کم ضرور ہو گیا۔
آزاد پر یہ الزام البتہ درست ہے کہ ان کی تنقید منصفانہ نہیں۔ وہ جانب داری سے کام لیتے ہیں۔ جسے پسند کرتے ہیں اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ جسے نا پسند کرتے ہیں اس کے کلام میں خامیاں ڈھونڈتے ہیں۔ مجبورا اس کی تعریف بھی کرنی پڑے تو اس انداز سے کرتے ہیں کہ غور کیجیے تو اس تعریف کی تہ میں ایک نہیں بہت سی خامیاں نکل آئیں۔ مومن خاں مومن جیسے بلند پایہ شاعر کے ساتھ تو یہ زیادتی کی کہ پہلے ایڈیشن میں ان کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ اس کو تاہی پر بہت لے دے ہوئی تو اگلی اشاعت کے لیے مولانا حالی سے ایک مضمون لکھوا کر منگایا۔ آزاد کی اس نا انصافی سے مومن کی عظمت میں تو کوئی فرق نہ آیا مگر آل احمد سرور کے قول کے مطابق مولانا آزاد نے شہرت عام کے دربار میں آپنا پایہ گھٹا لیا۔
غالب کی عظمت میں کسے کلام ہو سکتا تھا مگر آزاد کے استاد ذوق سے ان کی چشمک رہتی تھی اس لیے تعریف تو کی مگر اس طرح کہ تعریف کے پردے میں عیب گنوائے ۔ مثلا غائب کی مشکل کوئی پر چوٹ کیے بنا نہیں رہے۔ اس کے بر عکس اپنے استاد کی تعریف میں حد سے زیادہ مبالغہ کیا ہے۔ خود لکھا ہے کہ رنگ گہرا سانولا تھا اور کئی بار چیچک نکلی تھی۔ پورا چہرہ چیچک کے داغوں سے بھرا ہوا تھا مگر فرماتے ہیں کہ یہ داغ ایسی موزونی سے واقع ہوئے تھے کہ روشنی میں چمکتے تھے اور بشار دکھاتے تھے۔ “آب حیات” کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک ایسی آرٹ گیلری ہے جس میں ہمارے شاعروں کی جیتی جاگتی بے شمار تصویر میں نظر آتی ہیں۔ آزاد نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا۔ انھوں نے اردو شعرا کی بولتی چالتی اور چلتی پھرتی تصویریں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیں۔ حاتم ، سودا، میر، مصحفی ، انشاء آتش بدید کی تصویریں بے حد پر کشش ہیں۔ شخصیات کے علاوہ آب حیات میں ماحول کی مرقع کشی بھی بہت کامیاب ہے۔ مصنف نے شاعری کی تاریخ کو ادوار میں تقسیم کیا ہے اور شعرا کے ذکر سے پہلے اس دور کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ آزاد کا قلم بڑا سحر نگار ہے۔ ان کی ہر تحریر منہ سے بولتی ہے اور صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ الفاظ مولانا محمد حسین آزاد کے ہیں۔ اس لیے علامہ شبلی نے فرمایا تھا ” آزاد گپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے۔
“آب حیات” میں مولانا آزاد سے تحقیقی لغزشیں بھی ہو ئیں اور جانب داری نے بھی اس کتاب کی عظمت کو کم کیا مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آب حیات کی تصنیف کے وقت تحقیق و تنقید کا وہ معیار نہیں تھا جو آج ہے۔ یہ داغ ضرور ہیں مگر ایسے داغ جو چاند میں بھی ہیں اور چاند کی دلکشی کو کم نہیں کرتے۔
نیرنگ خیال کی اشاعت سے بقول ڈاکٹر اسلم فرخی اردو انشا پردازی میں ایک نئے اور خوشگوار باب کا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آزاد اگر ” نیرنگ خیال” کے علاوہ اور کچھ بھی نہ لکھتے تب بھی ان کا شمار اردو کے غیر فانی انشا پر رازوں میں ہوتا ۔ یہاں آزاد نے رنگیں و دل نشیں اسلوب اختیار کیا ہے اور شعری وسائل سے بہت کام لیا ہے۔ تجسیم کی طرف ان کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ تجسیم سے مراد ہے PERSONIFICATION یعنی کسی نظر نہ آنے والی شے کو جسم دے دیتا یا بے جان شے کو جاندار بنا کر دکھا دینا۔ مثلا سچ اور جھوٹ نظر نہ آنے والی چیزیں ہیں۔ سچ کو پری اور جھوٹ کو دیو کی شکل میں پیش کر دیا جائے تو یہ تجسیم کا عمل ہوا۔ پھر ان کرداروں کے سہارے کوئی کہانی پیش کر دی جائے تو اسے تمثیل کہیں گے۔ انگریزی میں ایسے ALLEGORY کہا جاتا ہے۔ نیرنگ خیال کے مضامین اسی نوعیت کے ہیں۔
نیرنگ خیال“ کے مضامین جونسن اور ایڈ یسن کے انگریزی مضامین کے آزاد ترجمے ہیں۔ صرف ایک مضمون شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اس کی تمہید تو ایڈ یسن کے ایک مضمون کا لفظی ترجمہ ہے لیکن دربار آزاد نے اپنے طور سے سجایا ہے۔ اس کے کردار ہندوستان اور ایران وغیره کی تاریخ سے انتخاب کیے گئے ہیں۔
آزاد کا اسلوب نگارش
–
مولانا محمد حسین آزاد کو اردو ادب میں کئی حیثیتیں حاصل ہیں۔ تحقیق، لسانیات، تاریخ ادب، تاریخ ہند ہر میدان میں انھوں نے سکہ جمایا ۔ شعر کہے تو اس انداز کے کہ جدید شاعری کے موجد کہلائے۔ مگر وہ شے جس نے اردو ادب میں انھیں حیات جاوداں عطا کی ان کا اسلوب نگارش ہے۔ اسلوب کا کمال یہ ہے کہ ہم چند سطریں پڑھیں اور بے ساختہ بول اٹھی کہ یہ فلاں انشاپرداز کے زور قلم کا نتیجہ ہے ۔ آزاد کو نثر نگاری میں یہی کمال حاصل ہے۔ ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہر سطر لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتی، سچے موتیوں کی لڑی ہوتی ہے۔ آزاد سے پہلے میرامن کی باغ و بہار اور غالب کے خطوط وجود میں آچکے تھے۔ سادگی بیان دونوں کی خصوصیت تھی۔ دہلی اردو اخبار اور دہلی کالج کی سادہ نثر بھی آزاد کے سامنے تھی۔ اس زمانے میں لوگ نثر کی سادگی کے قائل ہو چلے تھے۔ مگر آزاد کے سامنے ایک دشواری تھی۔ ان کا دل کھنچتا تھا ابو الفضل ، ظهوری بیدل اور نعمت خان عالی کی طرف۔ سادہ نثر کی افادیت کا اعتراف بے شک ہونے لگا تھا۔ مگر احترام سے سر جھکتا تھا ظہوری و بیدل کی نثر کے سامنے۔ لفاظی اور عبارت آرائی کا حکم ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں تھا۔ آزاد نے اپنے لیے بیچ کا راستہ نکال لیا۔ انھوں نے کمال فن کاری سے سادگی میں پر کاری کا پیوند لگایا اور اس خوبی سے لگایا کہ دونوں ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے۔ انھوں نے بہت غور و فکر کے بعد ایک ایک لفظ کا انتخاب کیا اسے بہت سلیقے سے ترتیب دیا۔ اپنی نثر میں تراش خراش اور رد و بدل کا عمل عبارت لکھنے کے بعد بھی جاری رکھا۔ برابر نوک پلک سنوارنے میں مشغول رہے۔ استعارہ ، تشبیہ، مرقع کشی جیسے شعری وسائل سے اپنی عبارت کو دلکش بنایا۔ اس لیے ان کی ایک ایک سطر سے شعریت ٹپکتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے انھوں نے شعر کو نثر میں لکھ دیا ہے۔
نثر آزاد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف کی شخصیت پوری طرح جلوہ گر ہوتی ہے۔ آزاد نہ کہیں اپنی ذات کو بھولتے ہیں نہ کہیں قاری کو نظر انداز کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ڈرامائی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً ” آزاد ! وہ زمانے کدھر گئے ‘ صاحب ! کیا کہوں پتھر کی چھاتی اور لوہے کا کلیجہ کر لو جب میرے خط کو پڑھو لو اب ایسی باتیں لکھتا ہوں جن سے لوگ کہیں گے کہ آزاد نے دربار اکبری لکھنے کا وعدہ کیا اور شاہ نامہ لکھنا شروع کر دیا ، آزاد بھی ایسے بے لیاقت لوگوں
کے ہاتھ سے داغ داغ ہو جاتا ہے۔
یہاں شخصیت اور اسلوب ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو گئے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ آزاد عبارت نہیں لکھ رہے باتیں کر رہے ہیں یا بلند آواز میں سوچ رہے ہیں۔ اس سے قاری کو مصنف سے قرب اور ذہنی یگانگت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک اور خاص بات یہ کہ مجرد خیال آزاد کی تحریروں میں کم ہی نظر آتا ہے۔ وہ اپنے خیال کو ٹھوس تصویروں میں ڈھالتے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ سنائی دینے سے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کی عبارت میں دلکشی اور تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ جو کچھ لکھتے ہیں محسوس کر کے لکھتے ہیں۔ شدت احساس محمد حسین آزاد کی تحریروں کا خاص وصف ہے۔ اس کے علاوہ بے ساختگی شگفتگی اور ہلکی ہلکی ظرافت وہ خوبیاں ہیں جو آزاد کی تحریروں میں جان ڈال دیتی ہیں۔
اب ملاحظہ فرمائیے آزاد کی تحریروں کے چند نمونے
: اللہ اللہ تقدیر نے کہا ہوگا کہ دل میلا نہ کیجیو۔ اس بچے کی شمیم اقبال مشک کی طرح تمام عالم میں پھیلے گی۔
: اس وقت دروغ دیو زاد اپنی دھوم دھام بڑھانے کے لیے سر پر بادل کا دھواں دھار پگڑ لپیٹ لیتا تھا۔ دغا کو اشارہ کر دیتا تھا کہ گھات لگا کر بیٹھ جاؤ۔ دائیں ہاتھ میں طراری کی تلوار بائیں میں بے حیائی کی ڈھال
ہوتی تھی۔
ان چند اقتباسات سے نثر آزاد کی تمام خصوصیات واضح ہو جاتی ہیں۔ تشبیہ و استعارے کا استعمال، پیکر تراشی کا رجحان، سادگی میں بناؤ اور بناؤ میں سادگی بول چال کا انداز لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا سلیقہ ۔۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو نثر آزاد کی اصل شناخت ۔۔ ہیں۔