پروفیسر احتشام حسین
پروفیسر احتشام حسین ہمارے ادب کے مار کسی نقاد ہیں۔ تقریباً نصف صدی کے تک انھوں نے اردو ادب کے کارواں کی راہبری کی۔ انھوں نے تنقید نگاروں کی ایک خاص نہج پر تربیت کی واہ واہ اور سبحان اللہ کی بھول بھلیاں سے نکل کر افادیت کی کسوٹی پر ادب کو پرکھنا سکھایا۔ مختصر یہ کہ انھوں نے مارکسی نظریے کی
اشاعت کی اور ادب میں اشتراکیت کی جڑوں کو مضبوط کیا۔
احتشام حسین جب تنقید نگاری کی طرف متوجہ ہوئے تو اردو تنقید کی حالت زیادہ تسلی بخش نہیں تھی۔ تاثراتی تنقید کا ظلم ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں تھا۔ ٹوٹا تھا عروضی تنقید کا بول بالا تھا۔ بے شک سائنٹیفک تنقید کا کارواں نئی منزل کی طرف قدم اٹھا رہا تھا مگر ابھی سفر کا آغاز تھا۔ ترقی پسند تنقید وجود میں تو آچکی تھی مگر اس کا ذخیرہ اتنا مختصر تھا کہ پوری طرح اردو تنقید پر اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ 1999ء میں اختر حسین رائے پوری کا ایک نہایت فکر انگیز تنقیدی مضمون ”ادب اور زندگی کے عنوان سے شایع ہو چکا تھا اور ادبی حلقوں میں اس پر بحث شروع ہو گئی تھی۔ مجنوں گورکھپوری کے کئی اہم مضامین شایع ہو چکے تھے۔ اب ضرورت تھی ایسے مفکر اور صاحب قلم کی جو ادب کو نئی ضرورتوں کا احساس دلائے اور سماج سے اس کا رشتہ جوڑ سکے۔ احتشام حسین نے اس خدمت کے لیے اپنا قلم وقف کر کے اس خلا کو پُر کر دیا۔
کارل مارکس کے نظریات کا احتشام حسین نے بغور مطالعہ کیا اور ان سے متاثر ہو گئے۔ پھر ساری زندگی انہی نظریات کی اشاعت میں مصروف رہے۔ کارل مارکس ایک جرمن مفکر تھے۔ انھوں نے اپنی تصنیف سرمایہ میں یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کے لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ایک طرف سرمایہ دار ہیں ، دوسری طرف مزدور اور کسان۔ سرمایہ دار دولت کے بل بوتے پر مزدور کی محنت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ طبقہ ظالم ہے اور غریب کو ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ مظلوم کی حمایت کی بجائے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے ۔1917 ء میں لینن کی رہنمائی میں مزدور انقلاب کامیاب ہو گیا تو پہلی بار اس مظلوم طبقے کا حوصلہ بلند ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ کمزور لوگ متحد ہو جائیں تو کوئی انھیں رہا نہیں سکتا۔ دنیا کے بہت سے ادیبوں اور دانش وروں نے مارکس کے نظریات کو تسلیم کیا۔ اس طرح مار کسی ادب وجود میں آنے لگا۔ ہمارے ادب میں یہ ترقی پسند ادب کہلایا۔ احتشام حسین بھی اسی تحریک کے علم بردار تھے۔
اشتراکیت کے پروفیسر احتشام حسین دل سے قائل تھے۔ انھیں یقین تھا کہ دنیا اشتراکی نظام کو اپنالے تو دولت کی نابرابر تقسیم کا خاتمہ ہو جائے گا اور محنت کش اپنی محنت کا پورا صلہ پاسکیں گے۔ چنانچہ ساری زندگی وہ اشتراکی نظام کا پرچار کرتے رہے۔ ادیب تھے اس لیے ہمیشہ اس ادب کے فروغ کی کوشش کرتے رہے جو محنت کشوں کی اُمنگوں کا ترجمان ہو ان کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے کوشاں ہو۔ جس ادب سے یہ مقصد پورا نہ ہوا سے وہ بیکار و بے مصرف خیال کرتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
“ادب کے سماجی ہونے کی کسوئی یہ ہے کہ اس سے سماج کو فائدہ پہنچے، محنت کش طبقہ اپنی محنت کا پھل کھائے اور آزادی کی جد وجہد میں اس سے مدد ملے۔ شاعری کے تخلیقی ہونے کی کسوٹی یہی ہو سکتی ہے کہ وہ کہاں تک آزادی اور اشتراکیت کی جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہے۔”
جو ادب اشتراکیت کے پر چار میں ناکام رہے اہے وہ سچا ادب خیال نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں ان کا رویہ خاصا شدت پسند ہے۔ شدت پسندی نے احتشام صاحب کی تنقید کو نقصان پہنچایا۔ ادب کا مطالعہ انھوں نے گہری نظر سے کیا تھا۔ فن کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ نکھرا ہوا ادبی ذوق رکھتے تھے لیکن اشتراکیت اور مقصدیت کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے کہ عام طور پر ان کی نظر موضوع و مفہوم پر جمی رہتی تھی۔ اسلوب کا پہلو نظر انداز ہو جاتا تھا۔ فن پارے کی ادبیت پر اکثر اتنی توجہ نہیں کر پاتے تھے جتنی کی جانی چاہیے۔ کبھی کبھی ایسی شاعری کو بھی سراہنے لگتے تھے جس میں شعریت کم اور پروپیگنڈا زیادہ ہو تا تھا۔ اس سلسلے میں وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ :
” ایسی شاعری جن لوگوں کے مفاد کے خلاف ہوتی ہے انھیں پروپیگنڈا معلوم ہوتی ہے اور جن کے ہاتھوں میں جدوجہد کا حربہ بن جاتی ہے انھیں
ایسی شاعری میں طاقت و توازن اور حسن کا جلوہ نظر آتا ہے۔”
احتشام صاحب شعر و ادب سے پیغامبری کا کام لینا چاہتے ہیں۔ پیغام سراسر پروپیگینڈا بن جائے یہ تو وہ گوارا کر لیتے ہیں لیکن ادب میں پیغام نہ ہو یہ ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ ٹی۔ ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ ادب کو پرکھنے کی پہلی کسوٹی ادب ہی ہے۔ مطلب یہ کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ادب میں ادبیت موجود ہے یا نہیں۔ اس کے بعد فکر ، فلسفہ اور پیغام پر غور کرنا چاہیے۔ اگر کوئی ادب پارہ فن کی کسوٹی پر بھی کھرا اترتا ہے اور اس میں کوئی پیغام بھی موجود ہے تو اسے خامی نہیں خوبی خیال کرنا چاہیے۔
ادب کی جمالیاتی قدروں سے احتشام صاحب بہت اچھی طرح واقف ہیں اور ادب میں ان کی تلاش بھی کرتے ہیں مگر ان کا معالمہ ٹی ایس ایلیٹ کے بر عکس ہے۔ دونوں کی ترجیحات الگ ہیں۔ احتشام صاحب پہلے مواد کو پر لکھتے ہیں پھر اسلوب کو ۔ کبھی کبھی اسلوب بالکل ہی نظر انداز ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی تنقید اکثر یک رخی ہو جاتی ہے۔
احتشام حسین کی زبان تنقید کے لیے نہایت موزوں ہے۔ لفاظی اور پیچیدگی سے وہ ہمیشہ اپنا دامن بچاتے ہیں۔ درست کہا گیا کہ ان کے تنقیدی مضامین کی ایک بڑی خوبی ان کا سلجھا ہوا واضح، سنجیدہ اور مدلل انداز بیان ہے۔ اس زمانے میں جب نشر کی رنگینی و رعنائی کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا تھا جب چلتے ہوئے جملوں کو لوگ تنقید کہتے تھے، انھوں نے خالص علمی نثر کو اپنی تنقید کے لیے اپنایا اور صاف ستھری غیر مبہم زبان میں اپنی بات کہی۔ یہی وجہ ہے کہ احتشام حسین کا خیال ان کی نثر میں پوری طرح روشن ہو جاتا ہے۔ جن تاثراتی نقادوں نے خوبصورت لفظوں اور چست فقروں کا سہارا لیا اور خیال کی تہی دامانی کے نثر کی رنگینی و رعنائی میں چھپا دینا چاہا اور کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے برعکس احتشام صاحب دھیرے دھیرے اہل علم کے دلوں میں گھر کرنے اور انھیں اپنا ہم خیال بنالینے میں کامیاب ہو گئے۔ “ فن تنقید کے مصنف کے بقول سید احتشام حسین پر انتہا پسندی اور یکسانیت کا الزام غلط نہیں ہے۔ دراصل غور و فکر کے بعد انھوں نے اپنی عمران متعین کرلی تھی اور اپنا راستہ چن لیا تھا جس پر ثابت قدمی کے ساتھ آخر وقت تک چلتے رہے۔ ان کے زمانے تک تنقید میں ذاتی پسند اور ناپسند ہی سب کچھ تھی، انھوں نے اردو تنقید کو معروضیت سکھائی اور اسے مستحکم زمین پر کھڑا کر دیا ۔ انھوں نے ادب اور زندگی کے اٹوٹ رشتے کو سمجھا اور دلیلوں کے ذریعے اس کی اہمیت کو منوایا ۔ اہل علم کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش میں انھیں بہت زیادہ لکھنا پڑا۔ ان کی کتابوں کی تعداد ڈیڑھ درجن کے قریب ہے لیکن ان کے تنقیدی نظریات کو سمجھنے کے لیے جن کتابوں کا مطالعہ ناگزیر ہے وہ ہیں : ادب اور سماج ، تنقیدی جائزے ، ذوق ادب اور شعور، روایت اور بغاوت۔
آخر میں ہم اتنا اور عرض کرنا چاہیں گے کہ پروفیسر احتشام حسین کی تنقید میں شدت یکسانیت اور یک رخا پن جیسی خامیاں ضرور نظر آتی ہیں مگر یہ جواب تھا فن پرستوں اور ماہرین عروض کی انتہا پسندانہ تنقید کا جو ادب پارے کے لفظوں میں الجھی رہتی تھی اور ان کے پیچھے جو مضامین و مفاہیم موجود ہیں ان کو یکسر نظر انداز کر دیتی تھی۔ پروفیسر محمد حسن نے احتشام صاحب کے تنقیدی کارنامے کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے
: “بڑے ادیب اور نقاد کا کام یہ نہیں ہوتا کہ اس کی ہر راے اور اس راے کے ہر لفظ پر الہام کا شبہ ہو اور وقت کی کوئی گردش اور ادب کی کوئی کروٹ بھی اس کی پیغمبرانہ بصیرت سے آگے قدم نہ بڑھا سکے۔ اس کا کام تو صرف یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے دور کے ادبی شعور اور تنقیدی بصیرت کو جس حالت میں پایا تھا اس میں کچھ اضافہ کر جائے اور رخصت ہوتے ہوئے چراغوں کی روشنی تیز کر دے تاکہ بعد میں آنے والے اس سے اپنے چراغ جلا سکیں۔ اپنے خیالات سے غور و فکر کی نئی لہریں پیدا کر دے اور کاروان ادب کے نئے راہرووں کے لیے نئی منزلوں کا سراغ دے جائے۔ احتشام صاحب کی تنقیدوں نے یہ اہم کام انجام دیا ہے اور اس طرح انجام دیا ہے کہ ان کے نقوش قدم مدتوں تک نئے آنے والوں کے لیے راستے روشن
کرتے رہیں گے۔“