پروفیسر کلیم الدین احمد

پروفیسر کلیم الدین احمد

پرو فیسر کلیم الدین احمد ہمارے عہد کے بہت اہم نقاد ہیں لیکن ان کی تنقید کو سراہا کم گیا اس پر لعن طعن زیادہ ہوئی۔ اس میں کچھ قصور ان کی تنقید کا بھی ہے۔ ان کی انتہا پسندی مغرب پرستی اور ان سے بھی بڑھ کر بت شکنی وہ خصوصیات ہیں جنہیں پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھا گیا اور نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ ان سے پہلے ہماری تنقید میں کڑواہٹ کم تھی اور مٹھاس زیادہ۔ ایسے میں کلیم الدین کی تلخ کلامی کچھ اور بھی تلخ لگی۔ ان کے قدم رکھتے ہی تنقید کی وادی میں بھونچال سا آگیا۔ ایک تنقید نگار نے لکھا ہے ” کلیم الدین احمد ایوان ادب میں اس طرح داخل ہوئے جیسے کوئی مست ہاتھی شیشہ گر کی دکان میں گھس جائے “۔ آئے ان کی تنقید کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیں۔

مغرب پرستی نے کلیم الدین احمد کی تنقید کو نقصان پہنچایا اور اسے یک رخا بنادیا۔ مغربی اور خاص طور پر انگریزی ادب سے وہ کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو گئے۔ نوجوانی میں اعلا تعلیم کے لیے وہ انگلستان گئے۔ وہاں انگریزی ادب کا مطالبہ کیا ادب کے پارکھوں سے فیض اٹھایا ان سے تبادلہ خیال کیا اور جب واپس ہندوستان لوٹے تو ایک نقاد کے الفاظ میں ان کی آنکھوں پر ایسی عینک چڑھ چکی تھی جس سے اپنی زبان کا ادبی سرمایہ حقیر و بے وقعت نظر آتا تھا اور ان کی راے میں اس کا نذر آتش کر دیا جاناہی بہتر تھا۔ اپنے ادب کا مغربی ادب سے مقابلہ کر کے وہ ہمیشہ خود بھی نادم ہوتے رہے اور اردو دانوں کو بھی پشیماں کرتے رہے۔ بار بار یہ جتاتے رہے کہ اردو ادب مغربی ادب کے مقابلے میں فرومایہ ہے۔ اردو شعرا نے ہمیشہ فارسی شاعری کی نقل کرنی چاہی۔ اگر وہ انگریزی شاعری کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے اور اس کی پیروی کرتے تو اردو شاعری کی دنیا آج بالکل بدلی ہوئی ہوتی۔

شدت و تلخ کلامی جو کلیم الدین احمد کی تنقید میں جابجا نظر آتی ہے، مغرب نے اس مرعوبیت کا لازمی نتیجہ ہے۔ ادب کو پرکھنے کی جو کسوئی وہ انگلستان سے لے کر آئے تھے جب اس پر اپنے ادب کو پرکھتے ہیں اور وہ کھرا نہیں اترتا تو جھنجھلا جاتے ہیں۔ پھر جو راے دیتے ہیں وہ انتہا پسندانہ ہوتی ہے، جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے آگ برستی ہے۔ اردو غزل جس نے اپنی سخت جانی کا ہر عہد میں لوہا منوایا ” انھیں نیم وحشی صنف سخن” نظر آتی ہے۔ اردو تنقید کا وجود اقلیدس کے خیالی نقطے اور معشوق کی کمر کی طرح موہوم معلوم ہوتا ہے۔

حالی جنھیں اردو تنقید کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں کلیم الدین احمد کا ارشاد ہے کہ ”خیالات ماخوذ واقفیت محدود، نظر سطحی ، فہم و ادراک معمولی غور و فکر ناکافی تمیز ادنا دماغ و شخصیت اوسط — یہ ہے حالی کی کل کائنات ! باباے اردو مولوی عبدالحق انھیں ادبی ذوق سے محروم نظر آتے ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور انھیں احساس کمتری میں مبتلا محسوس ہوتے ہیں۔

بت شکنی کلیم الدین احمد نے بے شک کی مگر اردو تنقید میں اس کی ضرورت بھی تھی۔ بت پرستی تو ہمارا شیوہ رہا ہے۔ اس کی بیخ کنی بُت شکنی کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔ جہاں حد سے بڑھی ہوئی مروت کا دور دورہ ہو اور جہاں بزرگوں کی خطاؤں پر انگلی اٹھانے والا خطاوار ٹھہرایا جاتا ہو وہاں یقینا ایک ایسے ہی سخت گیر نقاد کی ضرورت تھی۔ تعریف و توصیف کی پہلی انتہا کے بعد نکتہ چینی کی یہ دوسری انتہا تھی جس نے اردو تنقید میں اعتدال و توازن کی راہ ہموار کی۔ پروفیسر آل احمد سرور
لکھتے ہیں :

انھیں محض مغرب کا اندھا مقلد اور مارکسی تنقید کا کٹر مخالف کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا۔ ان کی انتہا پسندی سے چڑنے کے بجائے ان کا سنجیدگی سے
مطالعہ کرنا چاہیے۔”

کلیم الدین احمد کو تخریبی نقاد کہا جاتا ہے جو غلط ہے۔ اس کے برعکس وہ ایک تعمیری نقاد ہیں۔ اردو ادب کی تعمیر وہ نئی بنیادوں پر کرنا چاہتے ہیں۔ خود ان کے الفاظ میں انہدام کے بغیر تعمیر ممکن نہیں۔ ان کی خواہش یہ رہی کہ اردو ادب دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب کا ہمسر ہو جائے۔ اس میں آفاقیت اور ابدیت جیسے اوصاف پیدا ہو جا ئیں۔

آفاقیت اور ابدیت کو کلیم الدین احمد اعلا درجے کے ادب کی لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بہترین ادب وہ ہے جو کسی علاقے اور کسی زمانے تک محدود نہ رہے۔ اس میں کچھ ایسی خوبیاں ہوتی ہیں جو ہر جگہ سراہی جاتی ہیں اور ہمیشہ سراہی جاتی رہیں گی۔ مطلب یہ کہ اعلا درجے کا ادب زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ ان کی راے ہے کہ ادب آفاق گیر ہے اور انسان کے بنیادی افکار و احساسات سے وابستہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک انگریز فرانسیسی ادب سے اور ایک فرانسیسی روسی ادب سے لطف اندوز ہو سکے۔” ایک جگہ فرماتے ہیں :

” ادب کی دنیا ایک ہے۔ اس میں الگ الگ چھوٹی چھوٹی دنیائیں ہیں، خود مختار حکومتیں نہیں۔ شاعری کا مدعا آج بھی وہی ہے جو دو ہزار برس پہلے تھا اور فنون لطیفہ کے بنیادی قوانین شاعری کی اصولی باتیں ساری دنیا میں ایک
ہیں۔”

ترقی پسندوں کی مخالفت کلیم الدین احمد اس لیے کرتے ہیں کہ انھوں نے ادب کی آفاقی اور جمالیاتی قدروں کو نظر انداز کر دیا، صرف اشتراکیت کا پرچار ہی ان کا مدعا بن کے رہ گیا۔ ترقی پسند فن کاروں سے انھیں شکایت ہے کہ ادبیت اور حسن کاری کی اہمیت کو وہ زبان سے تو تسلیم کرتے ہیں مگر تخلیق ادب کا وقت آتا ہے تو انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور کمیونزم کی ستی اشتہار بازی کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ ترقی پسند ادب پر انھوں نے حملے کیے ، شدید حملے کیے اور پے در پے کیے۔ اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ ان کی تحریروں نے اشتراکی ادب کے قلم کو توڑا ۔ انھوں نے فن کار اور قاری دونوں کو ادب کی بنیادی قدروں کی طرف متوجہ کیا۔ انھوں نے بار بار یاد دلایا کہ ادب کو سب سے پہلے ادب ہونا چاہیے، بعد کو کچھ
اور ۔

کلیم الدین کی نشر عام طور پر صاف اور سادہ ہوتی ہے۔ اس میں کسی طرح کا الجھاد نہیں ہوتا۔ تاثراتی تنقید نے اردو تنقید کو ایک عرصے تک گمراہ کیا۔ وہ تنقید کے اس دبستاں سے بیزار ہیں اور اسے سرے سے تنقید ہی نہیں مانتے۔ محض واہ واہ اور سبحان اللہ کو شعر و ادب کے لیے مہلک خیال کرتے ہیں۔ ساری زندگی انھوں نے لفاظی اور عبارت آرائی سے پرہیز کیا۔ جو کچھ کہا صاف لفظوں میں اور واضح انداز میں کہا۔ بے شک ان کی نثر لطافت و نفاست سے محروم ہے مگر ان کی نثر میں وہ وضاحت و قطعیت ہے کہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہی بات قاری تک پہنچتی ہے اور اس کے ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ کلیم الدین کی تنقید سائنٹیفک تنقید ہے۔ وہ گول مول باتیں نہیں کرتے بے باکی سے راے دینے سے نہیں کتراتے۔ ضرورت پڑے تو وہ فیصلے بھی صادر کرتے ہیں۔۔ صاف اور دو ٹوک ! انھوں نے بہت لکھا۔ بہت کچھ اور لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر موت نے اس کی مہلت نہ دی۔ اردو شاعری پر ایک نظر ؛ اردو تنقید پر ایک نظر ؛ عملی تنقید ؛ سخنهاے گفتنی اور فن داستان گوئی ان کے اہم تنقیدی کارنامے ہیں۔ زمانی ترتیب سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بتدریج ان کی نظر میں وسعت پیدا ہوتی گئی ، فکر میں گہرائی آتی گئی ، زبان پر گرفت مضبوط ہوتی گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے نظریات میں اعتدال و توازن پیدا ہوتا گیا ۔انھوں نے بڑے خلوص اور لگن سے اردو شعر و ادب کی خدمت کی۔ ان کے نظریات برسوں تک اردو ادب اور اردو تنقید کو مشعل دکھاتے رہیں گے۔ اس مضمون کو ہم پروفیسر آل احمد سرور کی اس رائے پر ختم کریں گے : ” کلیم الدین احمد ہمارے چوٹی کے نقادوں میں سے ہیں۔ میں انھیں ایک بہت اہم نقاد ہی نہیں ، تنقید کا ایک بہت اچھا معلم بھی سمجھتا ہوں۔ نقاد کا کام صرف بت گری نہیں بت شکنی بھی ہے اور کلیم الدین احمد نے بہت سے بت توڑے ہیں۔“

تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×