ناول نگاری کافن
قصہ جب تک خوابوں اور خیالوں کی بھول بھلیاں میں گم رہا داستان کہلایا۔ جب اس سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں داخل ہوا تو ناول کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ گویا ناول داستان کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے۔ داستان فرصت اور کم علمی کے زمانے کی پیداوار تھی ، ناول کم فرصتی اور سائنس کے زمانے کی ایجاد ہے۔ داستان کی دو خصوصیات ایسی تھیں جنھیں بدلا ہوا زمانہ گوارا نہ کر سکا۔ ایک تو داستان کی طوالت ایسی طوالت کہ ایک بار شروع ہو جائے تو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے۔ مصروفیت کے دور میں اس کی گنجائش نکلنی محال تھی۔ دوسرے وہ چیزیں جنھیں عقل کسی طرح تسلیم ہی نہ کرتی تھیں مثلا دیو اور پریاں جادو گر اور جادوگرنیاں، طلسمی اور غیبی امداد – سائنس اور تحقیق کا سورج طلوع ہونے سے پہلے کا انسان ان تمام چیزوں پر آسانی سے ایمان لے آتا تھا۔ آج کا انسان ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور جو چیز اس پر پوری نہ اترے اسے رد کر دیتا ہے۔ مطلب یہ کہ داستان کی طوالت اور فوق فطری عناصر کو تو خیر باد کہہ دیا گیا لیکن اس کا بنیادی عصر قصہ بہر حال باقی رہا کیونکہ اس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا۔ قصے کے بغیر فکشن کا تصور ممکن ہی نہیں۔ البتہ ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ یہی قصہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے استعمال ہونے لگا اور روپ بدل کر ناول کہلایا۔ دیو اور پری شہزادہ اور شہزادی کی جگہ عام انسان ہیرو کی مسند پر رونق افروز ہوا۔ اس کی سیرت و کردار فن کار کی توجہ کا مرکز بنے۔ اس کے مسائل و مصائب، اس کی امنگیں اور آرزو ہیں، اس کے غم اور اس کی خوشیاں ناول کا موضوع قرار پائیں ۔ اس طرح ۔ ناول کی صبح طلوع ہوئی۔
ناول کی تعریف کرنا چاہیں چاہیں تو مختصر لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناول وہ
نثری قصہ ہے جس میں ہماری زندگی کی تصویر ہو بہو پیش کی گئی ہو۔ ولادت سے موت تک انسان کو جو معاملات پیش آتے ہیں، جس طرح وہ حالات سے نبرد آزما ہوتا ہے، جس طرح وہ حالات کو یا حالات اسے تبدیل کر دیتے ہیں وہ سب ناول کا موضوع ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ ناول ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں زندگی کے سارے روپ دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہاں یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ لفظ ناول اطالوی زبان کے لفظ ناویلا” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں نیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان پرانے انداز کے فرضی قصوں سے اکتا گیا تھا۔ جب اس نے وہ قصہ سنا جس میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا تھا تو اسے “نیا” کے نام سے یاد کیا۔
مناسب ہو گا اگر یہ بھی دیکھتے چلیں کہ اہم فن کاروں اور ناقدوں نے ناول کی کیا تعریف کی ہے۔ رابنسن کروسو کے خالق ڈ – ینیل ڈیفو جن کے سسر ناول نگاری کی ایجاد کا سہرا ہے وہ اس صنف سے حقیقت نگاری اور درس اخلاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فیلڈنگ ناول کو لطف اندوزی اور وقت گزاری کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ اسٹیونسن زندگی کے کسی خاص پہلو یا نقطہ نظر کی وضاحت کو ناول کا مقصد قرار دیتے ہیں۔ انگلستان کی مصنفہ کلا را ریوز نے ناول کی جو تعریف کی ہے وہ زیادہ جامع ہے۔ کہتی ہیں ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرت کی کچی تصویر ہے جس زمانے میں وہ لکھا جائے ۔ ایچ جی ویلز کی رائے میں اچھے ناول کی پہچان حقیقی زندگی کی پیشکش ہے۔
سر والٹر ریلے روز مرہ کی زندگی کو ناول کا موضوع بناتے ہیں اور حقیقت نگاری کو اس کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر بیکر ناول کے لیے چار شرطوں کولازمی ٹھہراتے ہیں۔ قصہ ہو ، شہر میں ہو، زندگی کی تصویر ہو اور مربوط ہو۔ مولوی نذیر احمد نے بہت کم لفظوں میں بڑے پتے کی بات کہہ دی ہے۔ ان کے مطابق جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے اس وقت ہے مرنے تک اس کو جو جو باتیں پیش آتی ہیں اور جس طرح اس کی حالت بدلا کرتی ہے اس کا بیان ہی ناول ہے۔
ناول کے اجزاء ترکیبی کیا ہیں یعنی وہ کیا چیزیں ہیں جن کا کسی ناول میں پایا جانا ضروری ہے۔ فن کے نقطہ نظر سے جن چیزوں کا ناول میں پایا جاتا ضروری ہے وہ ہیں : قصہ پلاٹ کردار نگاری، مکالمہ نگاری ، منظر کشی اور نقطہ
نظر۔ اب ان اجزا کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
قصہ وہ بنیادی شے ہے جس کے بغیر کوئی ناول وجود میں نہیں آسکتا۔ کوئی واقعہ کوئی حادثہ کوئی قصہ فن کار کو قلم اُٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک ضروری بات اور پڑھنے والے کو یہ قصہ بالکل سچا لگنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ قصہ جتنا جاندار ہو گا قاری کی دلچسپی اس میں اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اب یہ فن کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دلچسپی کو برقرار رکھے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کہانی اس طرح آگے بڑھے کہ پڑھنے والا یہ جانے کے لیے بے تاب رہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ گویا کہانی پن بر قرار رہے۔ کچھ عرصہ قبل فکشن لکھنے والوں نے کہانی سے چھٹکارا پانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ یہ صورت نہ برقرار رہی نہ رہ سکتی تھی۔
پلاٹ قصے کو ترتیب دینے کا نام ہے۔ ایک کامیاب فن کار واقعات کو اس طرح ترتیب دیتا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں ایسا منطقی تسلسل ہونا چاہیے کہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ بالکل فطری معلوم ہو۔ واقعات ایک دوسرے سے پوری طرح پیوست ہوں تو پلاٹ مربوط یا گٹھا ہوا کہلائے گا اور ایسا نہ ہو تو پلاٹ ڈھیلا ڈھالا کہا جائے گا جو ایک خامی ہے۔ ” مراؤ جان ادا” کا پلاٹ گٹھا ہوا اور کسا ہوا ہے جب کہ “فسانہ آزاد کا پلاٹ ڈھیلا ڈھالا ہے۔ ناول میں ایک قصہ ہو تو پلائے اکھرا یا سادہ کہلائے گا۔ ایک سے زیادہ ہوں تو مرکب جیسا کہ امراؤ جان ادا میں ہے۔ کچھ دنوں پہلے یہ بحث چلی تھی کہ ناول میں پلاٹ کا ہونا ضروری ہے بھی یا نہیں۔ اور جینیا وولف اور جیمس جوائس کے ناولوں کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ پلاٹ کے بغیر بھی ناول وجود میں آسکتا ہے۔ ہماری زبان کا ناول ” شریف زادہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے لیکن اصلیت یہ ہے کہ پلاٹ کے بغیر کامیاب ناول کا تصور ممکن نہیں۔
کردار نگاری ناول کا تیسرا اہم جزو ہے۔ ناول میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کے مرکز کچھ جاندار ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ انسان ہی ہوں۔ حیوانوں سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے۔ یہ افراد قصہ کردار کہلاتے ہیں۔ یہ جتنے حقیقی یعنی اصل زندگی کے قریب ہوں گے ناول اتنا ہی کامیاب ہو گا۔
کردار دو خانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ایک پیچیدہ (راؤنڈ) دوسرے سپاٹ (فلیٹ)۔ انسان حالات کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ نہ ہو تو اس میں اور مٹی کے مادھو میں کوئی فرق نہ رہ جائے۔ جن کرداروں میں ارتقا ہوتا ہے یعنی جو کردار حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں وہ راؤنڈ کہلاتے ہیں جیسے پریم چند کا ہوری اور امرکانت، مرزا ہادی رسوا کے امراؤ جان اور سلطان مرزا ۔ اسی طرح کے کردار جیتے جاگتے کردار کہلاتے ہیں اور ادب کی دنیا میں امر ہو جاتے ہیں۔
جو کردار ارتقا سے محروم ہوتے ہیں اور پورے ناول میں ایک ہی سے رہتے ہیں وہ سپاٹ یا فلیٹ کہلاتے ہیں۔ نذیر احمد کے مرزا ظاہر دار بیگ اور سرشار کے فوجی اس کی مثال ہیں۔ یہ دلچسپ ہو سکتے ہیں مگریچ سچ کے انسانوں سے ملتے جلتے
نہیں ہو سکتے۔
مکالمہ نگاری پر بھی ناول کی کامیابی اور ناکامی کا بڑی حد تک دارومدار ہے۔
ناول کے کردار آپس میں جو بات چیت کرتے ہیں وہ مکالمہ کہلاتی ہے۔ اسی بات چیت کے ذریعے ہم ان کے دلوں کا حال جان سکتے ہیں اور انہی کے سہارے قصہ آگے بڑھتا ہے۔ مکالمے کے سلسلے میں دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ مکالمے غیر ضروری طور پر طویل نہ ہوں کہ قاری انھیں پڑھنے میں اکتا جائے۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ وہ یہ کہ مکالمہ جس کردار کی زبان سے ادا ہو رہا ہے اس کے حسب حال ہو۔ مثلاً عالم کے مکالمے ایسے ہوں جیسے پڑھے لکھے آدمی کے ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ مکالمے کردار کی ذہنی کیفیت کے آئینہ دار ہوں۔ مثلا کوئی شخص غصے کے عالم میں گفتگو کرتا ہے تو اس کا انداز بیان کچھ اور ہوتا ہے خوشی کی حالت میں کچھ اور کامیاب فن کار مکالمے لکھتے وقت ان باتوں کو دھیان میں رکھتا ہے۔
نذیر احمد سرشار ، رسوا اور پریم چند ہماری زبان کے نہایت کامیاب مکالمہ نگار ہیں۔
منظر کسی سے ناول کی دلکشی اور تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ منظر کشی کامیاب ہو تو بھو نا قصہ بھی بچا لگنے لگتا ہے۔ امراؤ جان ادا میں رسوا نے خانم کے کوٹھے کا نقشا ایسی کامیابی کے ساتھ کھینچا ہے کہ پورا ماحول ہمارے پیش نظر ہو جاتا ہے۔ عرس ، میلے نواب سلطان کی کو تھی کا ذکر ہے تو ایسا کارگر کہ لگتا ہے ہم خود وہاں جاپہنچے ہیں۔ پریم چند کو بھی منظر نگاری میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ جو ناول نگار ناول میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف منظر نگاری کا کمال دکھانے کے لیے مختلف موسموں اور مقاموں کی تصویر کھینچتے ہیں وہ ناول کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ شرر اور طبیب کے ناولوں میں یہ کمزوری نمایاں ہے۔
نقطہ نظر جسم میں خون کی طرح فن کار کے قلم سے نکلی ہوئی ایک ایک سطر میں جاری و ساری ہوتا ہے۔ ہر انسان اور خاص طور پر فن کار کائنات اور اس کی ہر شے کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہر معاملے میں اپنی ایک راے رکھتا ہے۔ جب وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو گویا اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور اپنا نقطہ نظر واضح کرتا ہے۔ وہ پختہ کار ہے تو اپنی رائے کا برملا اظہار نہیں کرتا۔ وہ خود کچھ نہیں کہتا بلکہ قاری سے وہ بات کہلوالیتا ہے جو اس کے اپنے دل میں ہے۔ غرض یہ کہ ہر تخلیق کے پیچھے کوئی نقطہ نظر کار فرما ہوتا ہے اور مصنف ای کی خاطر تخلیق کا کرب جھیلتا ہے۔ مولوی نذیر احمد نے ابن الوقت“ یہ واضح کرنے کے لیے لکھا کہ بے سوچے سمجھے نقالی انسان کو ذلیل و خوار کر دیتی ہے۔ ان کا ہر نادول اصلاحی نقطۂ نظر کا حامل ہے۔ سرشار ”فسانہ آزاد“ میں لکھنو کے طرز معاشرت پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ پریم چند کی نظر دیہات کے مسائل پر رہتی
ہے۔
زمان و مکاں کو بھی بعض ناقدوں نے ناول کے اجزائے ترکیبی میں شامل کیا ہے اور کہا ہے کہ تھے کے لیے یہ تعین بھی ضروری ہے کہ وہ کب ہوا اور کہاں ہوا۔ جگہ (مکان) اور زمانے (زمان) کے ساتھ واقعات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ مثلاً ہر جنگ ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ معرکہ کربلا کا دکھانا مقصود ہے تو اس کی نوعیت اور ہو گی، جنگ پلاسی کا نقشا کھینچتا ہے تو اس کا انداز جدا گانہ ہو گا۔
ناول کی زبان ناول کے اجزائے ترکیبی میں شامل نہ سہی لیکن ناول کے سلسلے میں یہ بات اتنی اہم ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فکشن کی زبان کے جاسکے بارے میں اکثر مغربی ناقدین کی رائے یہ ہے کہ اس میں بناؤ سنگھار نہیں ہوتا چاہیے ورنہ قاری کی توجہ اصل موضوع یعنی کہانی یا واقعات سے بھٹک کر زبان کی آرایش میں اُلجھ جائے گی۔ ایک ناقد کا خیال ہے کہ فکشن کی زبان آئینے کے مانند نہیں بلکہ کھڑکی میں لگے اس شیشے کے مانند ہے جس سے آر پار صاف نظر آتا ہے۔ اسے رنگ دیکھیے تو باہر کا منظر اپنے اصلی روپ میں نظر نہیں آئے گا بلکہ اس کا بھی رنگ بدل جائے گا اس لیے فکشن نگار کا فرض ہے کہ اس شیشے کو صاف کرتا رہے۔ مطلب یہ کہ صاف اور سادہ زبان استعمال کرے مگر اتنی رعایت تو کرنی ہوگی کہ موضوع کے مطابق مصنف سادہ زبان سے انحراف بھی کر سکتا ہے۔ مثلاً امراو جان ادا میں ادبی اور شاعرانہ ماحول پیش کرتا ہے تو ہاں ادبی زبان کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔
: اردو ناول کا ارتقا :
اردو ناول اردو داستان کی ایک ارتقائی شکل ہے اور اسی کی کوکھ سے اس نے جنم لیا ہے مگر ہمارے ادب پر مغرب کا بھی احسان ہے کہ ہمارے بزرگ ادیوں کی نگاہیں ادھر انھیں اور انھوں نے مغربی ادب سے کسب فیض کیا۔ مولوی نذیر احمد کے کئی ناول انگریزی ناولوں سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔
مولوی نذیر احمد کی ”مراۃ العروس ۱۸۶۹ء میں شائع ہوئی۔ یہ اردو کا پہلا ناول ہے۔ اس ناول میں مولوی صاحب نے اکبری اصغری دو بہنوں کا قصہ بیان کیا ہے۔ ایک سلیقہ مند ہے دوسری بد تمیز اور پھوہڑ ۔ ایک اپنے گھر کو اپنے عادات و اطوار سے جنت بنادیتی ہے دوسری اپنی بدزبانی اور بد سلیقگی سے دوزخ ۔ دونوں بہنوں کے قصے الگ الگ لکھے گئے اس لیے پلاٹ میں مکمل ربط پیدا نہ ہو سکا۔ اس کا دوسرا عیب مصنف کی حد سے بڑھی ہوئی مقصدیت ہے۔ جس نے فنی نقطہ نظر سے ناول کو نقصان پہنچایا ۔ آگے چل کر ان کا فن کمھر تا گیا۔ خامیاں تو ان کے ناولوں میں بہر حال نظر آتی ہیں لیکن اس لیے نظر انداز کی جاسکتی ہیں کہ نذیر احمد اردو میں ناول نگاری کی بنیاد ڈال رہے تھے۔
نذیر احمد کے بعد رتن ناتھ سرشار نے اس صنف کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے بہت سے ناول لکھے لیکن سب سے زیادہ مقبولیت فسانہ آزاد کو حاصل ہوئی۔ انھوں نے لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی کی لیکن ناول کو قسط وار اور اس بے تو جہی سے لکھا کہ ربط و تسلسل باقی نہ رہا۔ آزاد اور خوجی کے کردار بہت خوب ہیں مگر اصلیت سے ذرا دور۔ یہاں بھی وہی عذر پیش کرنا پڑتا ہے کہ اردو ناول ابھی عالم طفولیت میں تھا۔ اس لیے یہ خامیاں قابل در گزر ہیں۔
ان دونوں کے بعد مولانا عبد الحلیم شرر اور محمد علی طبیب کا زمانہ آتا ہے ۔ یہ تاریخی ناول کا دور ہے جس میں اسلام کی عظمت و شوکت کے قصے دہرائے گئے۔ شرر کی شہرت کا دارو مدار ملک العزیز و رجینا” اور “فردوس بریں” پر ہے۔ یہ دوسرا ناول ان کا شاہکار ہے۔ شرر کی کردار نگاری کمزور ہے لیکن اس سے بھی بڑا عیب وہ تبلیغی جوش ہے جس نے ان کے فن کو نقصان پہنچایا۔ طبیب کی حیثیت بس تاریخی ہے۔ سجاد حسین ایڈیٹر اودھ پنچ کا زمانہ بھی تقریباً یہی ہے۔ ان کے ناول حاجی بغلول ، کایا پلٹ اور احمق الذین نے بہت شہرت پائی۔
مرزا محمد ہادی رسوا کا نام اردو ناول کی تاریخ میں آب زر سے لکھا جائے گا کہ انھوں نے ” امراؤ جان ادا” جیسا زندہ جاوید ناول اردو ادب کو دیا۔ ذات شریف اور شریف زادہ ان کے تقریباً کم رتبہ ناول ہیں۔ اس کے بعد ایک اور فن کار نے ناول کی دنیا میں قدم رکھا جس نے اس فن کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا۔ یہ پریم چند تھے۔ انھوں نے اردو ناول کو حقیقت نگاری سے آشنا کیا اور دیہاتی زندگی پیش کر کے اس کے دامن کو وسعت دی۔ گودان میدان عمل ، بازار حسن گوشه عافیت، چوگان ہستی ان کے مشہور ناول ہیں۔ پریم چند کے زمانے میں ہی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس تحریک نے محنت کشوں کے مسائل کو ادب میں داخل کیا اور زندگی سے ادب کا رشتہ محکم کیا۔ اس تحریک کے زیر اثر جو ناول لکھے گئے ان میں سجاد ظہیر کا لندن کی ایک رات”
قاضی عبد الغفار کا لیلیٰ کے خطوط ” عصمت چغتائی کا ٹیڑھی لکیر قرۃ العین حیدر کا “آگ کا دریا ، کرشن چندر کا شکست اور عزیز احمد کا “گریز” قابل ذکر ہیں۔ عزیز احمد نے کرداروں کی ذہنی کشمکش بڑے فن کارانہ انداز میں پیش کی۔ قاضی عبد الغفار نے بھی یہی انداز اختیار کیا۔ عصمت نے بھی تحلیل نفسی کا طریقہ اپنایا۔ انھوں نے متوسط مسلمان گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کے جنسی مسائل کا انتخاب کیا۔ کرشن چندر نے زیادہ جوش و خروش سے اشترا کی خیالات کا پرچار کیا۔ اسی دور میں عزیز احمد نے ایسی بلندی ایسی پستی گریز اور ہوس جیسے کامیاب ناول لکھے۔ قرة العین حیدر نے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اردو ناول کو ایک نئی تکنیک شعور کی رو سے روشناس کیا۔ آگ کا دریا، میرے بھی صنم ، خانے آخر شب کے ہم سفر ” چاندنی گردش رنگ چمن ان کے مقبول ناول ہیں۔ اردو ناول کے نقطہ نظر سے موجودہ دور خاص طور پر زرخیہ دور ہے۔ تقسیم ملک کے بعد نئی سرحدوں کی دونوں طرف کشت و خون کا جو بازار گرم ہوا اس نے فن کاروں کو ہلا کے رکھ دیا۔ ان کی تخلیقات میں اس خونیں داستان نے جگہ پائی۔ یہ دائرہ پھیلتا گیا اور عہد حاضر کے مسائل و مصائب ناول پر حاوی ہوتے گئے۔ انداز پیشکش بھی بدلا۔ انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں ذہنی کشمکش رفتہ رفتہ اردو ناول میں زیادہ جگہ پائی گئیں۔ فن میں زیادہ گہرائی آتی گئی۔
”
اس دور میں عبداللہ حسین کا اُداس نسلیں“ اور ”باگھ ” شوکت صدیقی کا “خدا کی بستی” خدیجہ مستور کا “آنگن ” حیات اللہ انصاری کا” لہو کے پھول” راجندر سنگھ بیدی کا ایک چادر میلی سی“ بلونت سنگھ کا “معمولی لڑکی ” قاضی عبدالستار کا” شب گزیدہ“ مندر ناتھ کا” ارمانوں کی سیج ” جمیلہ ہاشمی کا “تلاش ” بہاراں “ اور ”روحی“ جیلانی بانو کا ایوان غزل انور سجاد کا خوشیوں کا باغ” انتظار حسین کا بستی ” سلیم اختر کا ضبط کی دیوار جیسے معرکہ آرا ناول وجود میں آئے۔
تحریر از ڈاکٹر سنبل نگار