غزل
ہونٹوں پر مسکان سجی ہے اور گالوں پر لالی ہے
لگتا ہے کہ دل والوں پر آفت آنے والی ہے
جاتی ہے جو دل سے دل کی دھڑکن تک ‘ بے سمت ہوۓ
ہم نے ساجن سے ملنے کی وہ ترکیب نکالی ہے
ہجر سمے کی لمبی ‘ کالی ‘ رات ‘ مسلسل کہتی ہے
مجھ بِرہن کو وہ لے جاۓ ‘ جس کا آنگن خالی ہے
کس کو دل کے زخم دکھائیں؟ کس سے جا ‘ فریاد کریں ؟
کاٹ رہا ہے وہ پیڑوں کو ‘ جو اس باغ کا مالی ہے!!!
سارے پیڑ جلا دینے کے بعد ‘ ہمیں احساس ہوا
” موسم اتنا سرد نہیں تھا ‘جتنی آگ جلا لی ہے ”
سب سے ہٹ کر ‘ رنگِ تخیل ‘ سب سے ہٹ کر ‘ طرزِ بیاں
شعر و سخن میں ہم نے طارق ! اپنی راہ نکالی ہے
طارق محمود طارق