غزل
ہر گام ‘ ہر مقام سے آگے نکل گئی
خوش بو فرازِ بام سے آگے نکل گئی
جوشِ جُنوں میں’ چھم چھماچھم کرتی’ ناچتی
پازیب ‘ خوش خرام سے آگے نکل گئی
صبحِ دیارِ نور کو لازم ہے احتیاط
ظُلمت ‘ دیارِ شام سے آگے نکل گئی
پھرتی ہے اب وہ محملِ لیلٰی کے کھوج میں
دیوانگی ‘ خیام سے آگے نکل گئی
آزاد فکر ‘ موجِ تیقّن کے دوش پر
تقدیر کے غلام سے آگے نکل گئی
مجھ سے شکستہ پا کو بھلا کون پوچھتا ؟
” دنیا تھی ‘ اپنے کام سے آگے نکل گئی ”
فکر و نظر کی تازگی ‘ طارق بہ راہِ فن
فرسودگی کے دام سے آگے نکل گئی
طارق محمود طارق
جی سی یونی ورسٹی لاہور