ساکن مجسموں کی طرح ، دَر کے ہو گٸے

غزل

ساکن مجسموں کی طرح ، دَر کے ہو گٸے
ہم تیرے انتظار میں پتھر کے ہو گٸے

پتلا خطاٶں کا ہے بشر پر ہے یہ بھی سچ
مقہور ، ہم غریب ، مقدر کے ہو گٸے

دیکھو! کمالِ عشق ، کرشمہ جنون کا
کم زور سے پتنگے اَمَر ، مر کے ہو گٸے

تجھ سے ملا تو میرا مقدر بھی کھل گیا
سارے جہاں کے درد’ مرے در کے ہو گئے

بچوں کے واسطے نہ فراغت انھیں ملی
دفتر میں لوگ یُوں گٸے ، دفتر کے ہو گٸے

نکلے تھے پیار ڈھونڈنے ، آٸے نہ لوٹ کر
”اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گٸے“

طارق ، محبتوں میں ہوس کا نہیں ہے کام
وہ دور عشق سے ہوئے، جو زَر کے ہو گٸے

طارق محمود طارق
جی سی یونی ورسٹی لاہور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *