61 ہجری کے، کوفہ والوں کی طرح مت بنو

61 ہجری کے، کوفہ والوں کی طرح مت بنو…
✍🏼 اختر جلالی بنی ھاشم
تاریخ کے اوراق کا بغور مطالعہ کریں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ سب کو بخوبی معلوم تھا کہ یزید کون ہے اور حسینؑ کون. لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی دنیا کی تاریخ کا سب سے عظیم سانحہ رونما ہوا. وقت کے امام اور ان کی اولاد و اصحاب کو نہایت بےدردی سے شہید کر دیا گیا. نہ صرف یہ بلکہ آلِ رسولﷺ کو شہید کرنے کے بعد، ان کے جسموں کو گھوڑوں سے پامال کیا گیا، سروں کو نیزوں پر چڑھایا گیا اور پھر ان کی مخدرات عصمت و طہارت کو اسیر بنا کر برہنہ سر بازاروں اور درباروں میں پھرایا گیا، ان اسیروں میں خواتین کے ساتھ بچے بھی تھے. ظلم کی انتہا کی گئی. لیکن پھر بھی سب کچھ دیکھتے رہے. افسوس اس بات کا ہے کہ جانتے ہوئے بھی یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتے رہے.
آخر کیوں؟؟؟
مصلحت کا شکار ہو کر، ڈر اور خوف کے مارے، دنیاوی مال و دولت کے لالچ میں آ کر…
حسینؑ ابن علیؑ نے 61 ہجری میں ایک کام آسان کیا تھا؛ کربلا کے میدان میں دنیا کو دکھا دیا کہ یزید کون ہے اور حسینؑ کون! یزیدیت کیا ہے اور حسینیتؑ کیا!
آج بھی معاشرے میں واضح طور پر، یزیدیت اور حسینیتؑ نظر آتا ہے اور سب جانتے بھی ہیں لیکن پھر بھی 61 ہجری کے کوفہ والوں کی طرح، مصلحت کا شکار ہوتے ہیں اور خاموشی اختیار کرتے ہیں.
آج بھی یزید زندہ ہے اور اس سے بھی زیادہ مصیبت یہ ہے کہ معاشرے میں موجود آج کے یزیدوں کے آگے اٹھنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے. کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ہو کر چشم پوشی کرتے ہیں.
جو بھی معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ یزید ہے. کوفہ والوں کی خاموشی کی وجہ سے سانحہ کربلا برپا ہوا اور آج بھی خاموشی کی وجہ سے معاشرے میں عدم توازن برقرار ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×