کشاد عقده دشوار
کشاد عقده دشوار وا ہوا باب علم جب، گھل گئے سارے راز تب عقده حشر و نشر سب، رمز مکان و لامکاں عالم سوز و ساز میں ہم کو عزیز
کشاد عقده دشوار وا ہوا باب علم جب، گھل گئے سارے راز تب عقده حشر و نشر سب، رمز مکان و لامکاں عالم سوز و ساز میں ہم کو عزیز
زحب جام تو مستم ممکن کہاں کہ آپ کا یہ حق ادا نہ ہو عاشق وہ کون ہے جو رقیب خدا نہ ہو کیا چاہتے ہیں مصلحت انداز کیا خبر
گل شیر ( آرمی پبلک اسکول پشاور کے ڈیڑھ سوشہید طلبہ کے نام ) اسے بہنوں کو سوتے سے جگانے میں مزا آتا اسے دادی کی عینک کو چھپانے میں
ملالہ یوسف زئی ملالہ روشنی ویسے ہی کم ہے چراغ زندگی بجھنے نہ پائے لہو سے تم نے لکھا حرف تازہ کسی صورت یہ اب مٹنے نہ پائے قلم بندوق
رومینی کے لیے دُعا رہے نگاہ میں تا عمر شوخی ایجاد گرفت میں ہوں روایات علم و حکمت بھی دل گداز پہ افشا ہوں کائنات کے راز تمہیں نصیب ہو
تپش ارض ( گلوبل وارمنگ) اپنے اپنے محوروں پر تیرتے رہتے تھے سب ضبط کا اک سلسلہ قائم تھا سیاروں کے بیچ برگ گل پر آب رکھتی تھی کبھی بادِ
ایک سیکنڈ میں بجھ سکتے ہیں تیرہ جگنو جل سکتے ہیں سات ستارے گر سکتی ہیں پانچ چٹانیں مل سکتے ہیں دو اجنبی کھل سکتا ہے ایک پھول چل سکتی
تندور پر سردی کا اندازہ کچن کی میز پر اک چاۓ کی پیالی رکھی ہے اسی کے ساتھ چینک (ٹوٹنے والی) رکھی ہے ہرے صوفے پہ کتا سا کوئ سکڑ
خالی جھولی ہر گولی کام آئی کام آئی ہر گولی یہ کیسی شام آئی سو گیا تھک کے سوالی تھک کے سوالی سو گیا پسٹل ہو گیا خالی خون سے
معصوم کالج ٹیچر ۔ 70 کی دہائی ۔ لبرل پروگریسو guy تمغے جیتے ۔ ۔ جماعتیوں کے ہاتھوں پکی جاب گنوائی چالیس برس تک کسی خدا کو شکل نہ مڑ
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ