حافظ صاب کا کام
حافظ صاب کا کام نصف قناعت ، نصف مصیبت پر چلتا تھا صبر اور شکر پہ پانچ کا یہ کنبہ پلتا تھا کمک ملی مسجد کو عرب سے اور نہ
حافظ صاب کا کام نصف قناعت ، نصف مصیبت پر چلتا تھا صبر اور شکر پہ پانچ کا یہ کنبہ پلتا تھا کمک ملی مسجد کو عرب سے اور نہ
چائے کی پیالی میں رات دومونچھ پوش وردی بان گیٹ پر اُس ایک لا کھ کر ائے کے فلیٹ پر جوچرس worse پیتے رات کٹ گئی تو کونسا کسی کی
بے قصور بچے بینکاک میں بھی رُلتے ہیں جسم نیو یارک میں بھی تلتے ہیں قتل وینس میں اتنے ہوتے ہیں ! ریپ پیرس میں جتنے ہوتے ہیں ! دوسو
چوکیدار کی عیدی اس کا ہزار تو حق بنتا ہے حالت غیر تھی اس دن جب یہ اپنا ۔ اُن کے ہاسپیٹل تک لے کے گیا تھا وہی نا! پانچ
ڈیکوریشن پیس یا در ہے کہ زہر نکال دیں ، تو تھوڑا سا ڈنک بچے گا ڈنک نکال دیں ، تو ہلکا پھلکا خوف باقی ماند ہ سانپ کی قومی
غزل وہی جذبہ ‘ وہی نعرہ ہمارا وہی منزل ‘ وہی رستہ ہمارا کبھی مرکز تھا یہ لالہ رخوں کا یہ گلشن تھا ‘ کبھی مہکا ہمارا اسی کی ذات
غزل ہر گام ‘ ہر مقام سے آگے نکل گئی خوش بو فرازِ بام سے آگے نکل گئی جوشِ جُنوں میں’ چھم چھماچھم کرتی’ ناچتی پازیب ‘ خوش خرام سے
غزل . ازل سے ہی یہ مہ پارے عجب تقسیم کرتے ہیں سرِ محفل یہ غیروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں کہا اس نے نظر کے جام ایسے تو نہیں
کوئی بلبل چہکتی نہیں ہے دل کی کھیتی مہکتی نہیں ہے لاکھ کوشش کی ، اہلِ ہنر نے پر، طبیعت سنبھلتی نہیں ہے گل بدن! بے خراماں گلوں میں گل
غزل تیلی ماچس کی اک جلائی ہے دل کی حالت اسے دکھائی ہے لوٹی دل کی دکان چپکے سے اس کے ہاتھوں کی کیا صفائی ہے ! نکلا ہو گا
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ