غزل
تیری گرفت میں اک شب بکھرنے والا ہوں، تمہارے دل سے کسی دن اُترنے والا ہوں، میں بادشاہ ہوں مگر سلطنت طویل نہیں، فقیر آئے ہیں اور میں گزرنے والا
تیری گرفت میں اک شب بکھرنے والا ہوں، تمہارے دل سے کسی دن اُترنے والا ہوں، میں بادشاہ ہوں مگر سلطنت طویل نہیں، فقیر آئے ہیں اور میں گزرنے والا
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ