سوچتا ہوں کہ تمہیں نظم کا پیکر دے دوں
“تم” سوچتا ہوں کہ تمہیں نظم کا پیکر دے دوں نظم ایسی کہ جسے پڑھ کے کوئی پھونکے تو دل میں اترے ہوئے زخموں کو قرار آ جائے عہدے دوراں
“تم” سوچتا ہوں کہ تمہیں نظم کا پیکر دے دوں نظم ایسی کہ جسے پڑھ کے کوئی پھونکے تو دل میں اترے ہوئے زخموں کو قرار آ جائے عہدے دوراں
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ