ہوا آنگن میں جب ٹھنڈی چلے گی
ہوا آنگن میں جب ٹھنڈی چلے گی ہماری گفتگو لمبی چلے گی ترے دل پر بھی تھے اغیار قابض میں سمجھا تھا مری مرضی چلے گی جسے آتے ہیں گُر
ہوا آنگن میں جب ٹھنڈی چلے گی ہماری گفتگو لمبی چلے گی ترے دل پر بھی تھے اغیار قابض میں سمجھا تھا مری مرضی چلے گی جسے آتے ہیں گُر
درونِ شہر جب کوئی تباہی پھیل جاتی ہے ترے موجود ہونے کی گواہی پھیل جاتی ہے تری تاریک راتوں کی ۔۔۔۔۔۔بہیمانہ خبر سن کر مرے کوچے میں بھی شب کی
سکوت کے ساحلوں پہ خلقت پڑی رہے گی نشاط گاہوں میں صرف وحشت پڑی رہے گی تھکن سے بوجھل ہماری آنکھوں کی روشنائی ترے دریچے پہ تا قیامت ۔۔۔۔پڑی رہے
یہ میں ہوں ، کہ ڈھلتی ہوئی اک شام کی تصویر؟ دیکھو تو۔۔! مرے آخری ایّام کی تصویر اعصاب پہ اُس شوخ کا پہرا ہے مسلسل اور دل میں کسی
غزل۔۔ قول و قسم جھوٹے تھے، وعدے جھوٹے تھے یار ! تمہارے سارے دعوے جھوٹے تھے ہم نے قبیلے کے لوگوں کو پرکھا تو جتنے بھی تھے سیدھے سادھے۔۔۔جھوٹے تھے!
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ