غزل
کتنے لوگوں کے لیے جینے کا سامان بنے جو مناظر تری تخلیق کے دوران بنے خوش اگر رہتے تو کس طرح توجہ پاتے جان کر ہم تری محفل میں پریشان
کتنے لوگوں کے لیے جینے کا سامان بنے جو مناظر تری تخلیق کے دوران بنے خوش اگر رہتے تو کس طرح توجہ پاتے جان کر ہم تری محفل میں پریشان
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ