
ساکن مجسموں کی طرح ، دَر کے ہو گٸے
غزل ساکن مجسموں کی طرح ، دَر کے ہو گٸے ہم تیرے انتظار میں پتھر کے ہو گٸے پتلا خطاٶں کا ہے بشر پر ہے یہ بھی سچ مقہور ،
غزل ساکن مجسموں کی طرح ، دَر کے ہو گٸے ہم تیرے انتظار میں پتھر کے ہو گٸے پتلا خطاٶں کا ہے بشر پر ہے یہ بھی سچ مقہور ،
غزل خوشی وہ آئی ہے کٹیا میں تیرے آنے سے دفینہ جیسے ہو نکلا غریب خانے سے مٹھاس گھلتی ہے کانوں میں ‘ سر بکھرتے ہیں مَدُھر سی لَے میں
غزل میں چاہتا ہوں آپ سے مجھ کو گلہ رہے رشتہ یہ گفتگو کا ہمیشہ بنا رہے چنتا رہوں سخن کے میں تازہ بہ تازہ گل فکر و نظر میں
غزل گلِ شاداب ہوں لیکن مہکنا بھول بیٹھا ہوں میں بلبل ہو کے بھی چپ ہوں ‘ چہکنا بھول بیٹھا ہوں کمی ہے عزم و ہمت کی ‘ نہ اندیشہ
غزل وہی جذبہ ‘ وہی نعرہ ہمارا وہی منزل ‘ وہی رستہ ہمارا کبھی مرکز تھا یہ لالہ رخوں کا یہ گلشن تھا ‘ کبھی مہکا ہمارا اسی کی ذات
غزل ہر گام ‘ ہر مقام سے آگے نکل گئی خوش بو فرازِ بام سے آگے نکل گئی جوشِ جُنوں میں’ چھم چھماچھم کرتی’ ناچتی پازیب ‘ خوش خرام سے
غزل . ازل سے ہی یہ مہ پارے عجب تقسیم کرتے ہیں سرِ محفل یہ غیروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں کہا اس نے نظر کے جام ایسے تو نہیں
کوئی بلبل چہکتی نہیں ہے دل کی کھیتی مہکتی نہیں ہے لاکھ کوشش کی ، اہلِ ہنر نے پر، طبیعت سنبھلتی نہیں ہے گل بدن! بے خراماں گلوں میں گل
غزل تیلی ماچس کی اک جلائی ہے دل کی حالت اسے دکھائی ہے لوٹی دل کی دکان چپکے سے اس کے ہاتھوں کی کیا صفائی ہے ! نکلا ہو گا
غزل ہونٹوں پر مسکان سجی ہے اور گالوں پر لالی ہے لگتا ہے کہ دل والوں پر آفت آنے والی ہے جاتی ہے جو دل سے دل کی دھڑکن تک
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ