اوک میں خوشبو
اوک میں خوشبو مجھے اب نظم کہنے میں تمھیں پھر یاد کرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے اگر سنگلاح رستوں سے خزاں خوردہ بہاروں کے خرابوں سے اگر تم سے
اوک میں خوشبو مجھے اب نظم کہنے میں تمھیں پھر یاد کرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے اگر سنگلاح رستوں سے خزاں خوردہ بہاروں کے خرابوں سے اگر تم سے
نیلی شام عجب واقعہ ہے کہ جب شام نیلی ہو جاتی ہے مجھ کو سیہ رات میں کھونے والی سبھی چیزیں یاد آتی ہیں کالی راتیں نگل سکتی ہیں روشنی،
نظم یاد کے شہر راکھ تھے اور دھواں دھواں سا تھا پھیلتی تھی چہار سو سرمئی دھول رات بھر میں نے تھکن کی دھول میں چاند تراش ہی لیا اور
خسارہ جلتے رہتے ہیں تمام عمر دیے طاقوں میں اور مدھم روشنی میں بنتے بگڑتے ہیں لوگ ایک لمحہ نہیں رہتی ہے لبوں پر ہنسی بھی ایک ساعت نہیں تھمتا
سرخ پھول پھیلتی سرمگی ڈوبتا صاف دن شام اور گیت گاتا ہوا سرخ پھول اک چمکتے ہوئے چاند کی چاندنی چار سو پھیلتی رات کی کالی دھول اس میں اک
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ