زمین کھولتے لاوے کو روکتی کب تک
غزل زمین کھولتے لاوے کو روکتی کب تک اُبل کے دل سے ہے اک آہ آگئی لب تک میں دھول جھاڑ کے نکلوں گا دیکھنا اک دن میں اپنے آپ
غزل زمین کھولتے لاوے کو روکتی کب تک اُبل کے دل سے ہے اک آہ آگئی لب تک میں دھول جھاڑ کے نکلوں گا دیکھنا اک دن میں اپنے آپ
. غزل ظاہر کی آنکھ سے تو وہ پردہ نشیں لگے دل دیکھنے لگے تو وہ ہر دم یہیں لگے ورنہ تو ایک بوجھ ہے تن پر لدا ہوا سجدہ
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ