میرے دل سے غبار کبھی نکلا ہی نہیں
میرے دل سے غبار کبھی نکلا ہی نہیں کس سے کہتا کوئی جانِ وفا ہی نہیں لوگ بہت ملے لیکن کوئی دوست نہ تھا خود کو سنواروں کیا جب میں
میرے دل سے غبار کبھی نکلا ہی نہیں کس سے کہتا کوئی جانِ وفا ہی نہیں لوگ بہت ملے لیکن کوئی دوست نہ تھا خود کو سنواروں کیا جب میں
لٹکتے گھونسلوں کو دیکھ کر ہوئے تھے مکین ہمیں خبر نہیں تھی موت کی یہاں ہے زمین وہ اہل عقل سے تھے اور دکھنے میں بھی حسین مگر جوانی نے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ