چاند اظہر ہے کہ ہر فرش نشیں دیکھ سکے
غزل چاند اظہر ہے کہ ہر فرش نشیں دیکھ سکے اپنی تمثیل میں وہ تیری جبیں دیکھ سکے اس پری زاد کی موجودگی میں کوئی بھی شخص غیر ممکن ہے
غزل چاند اظہر ہے کہ ہر فرش نشیں دیکھ سکے اپنی تمثیل میں وہ تیری جبیں دیکھ سکے اس پری زاد کی موجودگی میں کوئی بھی شخص غیر ممکن ہے
غزل نفس کی تاب کو یکسر گھٹائے جا رہا ہے نجانے کون سا غم ہے جو کھائے جا رہا ہے سراغ منزل مقصود تو ہے پا لیا پر مرے پیروں
غزل لاکھ چہرے ہوں مگر عشق کہاں دیکھتا ہے ابر تو قصر نہ مٹی کا مکاں دیکھتا ہے تجھ کو کھو دینے کے بعد اب زمانہ بخدا اپنا نقصان نہیں
غزل اس کے میرے درمیاں جب تیسرا حائل ہوا تب کہیں میں وحشتوں کی راہ پر مائل ہوا ہاتھ جوڑے، پاؤں پکڑے، واسطے مجھ کو دیے میں تو میں تھا
نظم حقیقت اب بھی مضمر ہے تمامی رنگ برنگے خول چہروں پہ چڑھائے سچ چھپاتے ہیں کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اس رات کے پردے کے پیچھے کتنی آہیں
نظم ابھی تم جواں ہو یہاں ہو جہاں پر جوانی غرور و تکبر میں ڈوبی ہوئی ہے ابھی تو ہئیر کٹ سلونوں میں بالوں کے فلمی سٹائل بناتے یہ لڑکے
نظم پریشاں ہوں زمانہ آرزو کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے جو نوکر تھے انہوں نے نوکری اپنی گنوا دی ہے جو عاشق تھے انہوں نے عاشقی اپنی لٹا دی
مصروف کار آدھی رات میں غزلیں سن کر آدھی رات میں غزلیں گا کر پورے چاند کی رات گزاری جاتی ہے پھر دن میں سوجھی آنکھیں لے کر خواب تلاشے
نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن زادی! زندگی کی غم میں ڈوبی شام تیرے نام جتنی گھڑیاں تیرے میرے باہمی جذبات کے سنگم میں بیتیں میرے جتنے لمحے تیرے ہجر میں گم رہ
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ