غزل
خواب کی کوکھ میں پلتے ہوئے رو پڑتے ہیں نیند میں پہلو بدلتے ہوئے رو پڑتے ہیں مجھ سے چھپ کر میرے کاندھوں کے فرشتے اکثر گھر کے آنگن میں
خواب کی کوکھ میں پلتے ہوئے رو پڑتے ہیں نیند میں پہلو بدلتے ہوئے رو پڑتے ہیں مجھ سے چھپ کر میرے کاندھوں کے فرشتے اکثر گھر کے آنگن میں
دل کے خانے میں پڑی ہیں تیری یادیں تہہ بہ تہہ وقت کی بنجر زمیں پر ہیں یہ قبریں تہہ بہ تہہ موت منزل ہے سو میں رستے میں پڑھنے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ