صبح کاذب
صبح کاذب قلب پر چشم بینا پہ گفتار پر سننے محسوس کرنے پہ اظہار پر بےحسی ثبت ہے درد کے شہر میں گرد کے مرد نامرد کے شہر میں مردنی
صبح کاذب قلب پر چشم بینا پہ گفتار پر سننے محسوس کرنے پہ اظہار پر بےحسی ثبت ہے درد کے شہر میں گرد کے مرد نامرد کے شہر میں مردنی
اور اب سوچتے ہیں دور تھی منزل مقصود مگر چلتے رہے ہفت خواں طے کیے ظلمات سے گزرے بھٹکے وسعت دشتِ تمنا میں سراسیمہ زبوں آبلہ پا رات دن چلتے
خواہش ساکن ہے ہوا اتنی پتہ بھی نہیں ہلتا غنچہ بھی نہیں کھلتا اندھیر ہے کچھ اتنا رستہ بھی نہیں ملتا اس عہد سیاست میں انسان کھلونے ہیں جو دیو
اچانک پیل تن پیڑ جب گر گئے وسوسوں نے بہت سخت یلغار کی اب کہاں ایسی چھاؤں ملے گی ہمیں راستہ روک کر بولی کم ہمتی بے دلی سی مسلط
الٹے پاؤں والے لوگ میں نے دیکھا سر شام کچھ مسخرے ایک ٹیلے پہ بیٹھے ہوئے زور سے ایک نقارہ پیٹے چلے جارہے ہیں ،مجھے کچھ تعجب ہوا سوچا شاید
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ