اے میرے غم
اے میرے غم جلتے مہر ، خنک مہتاب کے رنگ سمجھتے ، تار نظر کی گرہیں کھولتے ریشم بنتے عمر کٹی ہے اے میرے غم !تیرے بدن کی عریانی کا
اے میرے غم جلتے مہر ، خنک مہتاب کے رنگ سمجھتے ، تار نظر کی گرہیں کھولتے ریشم بنتے عمر کٹی ہے اے میرے غم !تیرے بدن کی عریانی کا
امتناع کا مہینہ اس مہینے میں غارت گری منع تھی ، پیڑ کٹتے نہ تھے تیر بکتے نہ تھے بہر پرواز محفوظ تھے آسماں بے خطر تھی زمیں مستقر کے
روشن بام ہے چاند اترا ہے روشن بام ہے چاند اترا ہے خنداں تارے ، سرخ رومالوں والے لڑکے ، استقبالی محرابوں کے رستے پر صف بستہ ہیں ، دف
ایک خط۔۔۔۔۔۔۔آشنا ورثوں کے نام گئے زمانے کے راستے پر پہاڑ ، سورج ، زمین ، دریا نقوشِ پا ، نام ،ذات ، چہرہ میں اپنے چہرے سے منحرف ہوں
بھورسمے اور وافر پانی بھورسمے اور وافر پانی میرے قد سے ، میرے سائے سے بالا ، آبی دیواریں اک دیوار کے سائے میں اس جسم سے دکھ کی کالک
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ