اڑتے گلوں کے سائے میں بیٹھے جو شادماں
اڑتے گلوں کے سائے میں بیٹھے جو شادماں سکھ چین اپنی خاک کے پہلو میں ہے کہاں روغن اجالتا کا ، گلوں نفس کے تار سانسوں میں ڈولتی ہیں چراغوں
اڑتے گلوں کے سائے میں بیٹھے جو شادماں سکھ چین اپنی خاک کے پہلو میں ہے کہاں روغن اجالتا کا ، گلوں نفس کے تار سانسوں میں ڈولتی ہیں چراغوں
اڑنے لگی تھی چاندنی بن کر خزاں کی دھول ہم نے دبائے برف میں کن حسرتوں کے پھول پاؤں کے پھر نے کیا ماتھے کو ذرد خار تازہ گلوں کی
ریت سمندر سے ، موتی برساتوں میں نور اجالے دل نے کندن راتوں میں شعلوں کو زنجیر کروں گا پھر ان سے دل کو دھنوں گا خوں ہوتے جگراتوں میں
لووں کی ڈوبتی کرنوں کے رقص میں ہے ایاغ پگھلتے روغنوں سے حلقہ ہے نظر کا چراغ خزاں کی لہر نے موتی اجالے لالے کے بہار کھا گئ پیلاہٹوں کی
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ