مجھے خار زار بنا دیا بڑی گل عزار سی شام نے ، ترے سامنے
مجھے خار زار بنا دیا بڑی گل عزار سی شام نے ، ترے سامنے مرے سارے دیپ بجھا دیے تھے ہوا کے مست خرام نے ، ترے سامنے تجھے یاد
مجھے خار زار بنا دیا بڑی گل عزار سی شام نے ، ترے سامنے مرے سارے دیپ بجھا دیے تھے ہوا کے مست خرام نے ، ترے سامنے تجھے یاد
جتنا بھی گدلا ہوں سائیں تیرے دوار کھڑا ہوں سائیں وقت کی بازی گاہ میں آکر سب کچھ ہار گیا ہوں سائیں تیری باغ بھری دنیا میں میں کتنا صحرا
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ
من کیکر کی اک ٹہنی صندل کر مولا پھر صندل کو صندل کا جنگل کر مولا اک عمر ہوئی ہے سارا تن من راکھ ہوئے اب دھوپ بھرے ملبوس کو
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ