نشان کس کا سپہر سیاہ میں آیا
نشان کس کا سپہر سیاہ میں آیا بہت جوان تھا کفش و کالاہ میں آ یا چراغ کشتہ کے اک طاقچے پہ میرا نام سحر ہوی تو ہوا کی نگاہ
نشان کس کا سپہر سیاہ میں آیا بہت جوان تھا کفش و کالاہ میں آ یا چراغ کشتہ کے اک طاقچے پہ میرا نام سحر ہوی تو ہوا کی نگاہ
ایک ہی وقت میں تمہید بر و بحر لکھی ایک ہی رنگ سر مقتل و مامن رکھا ابر کو کاہ رباوں میں گرفتار کیا شہر سیلاب کو تمثیل مزین رکھا
دل خوش بہت فضاے اساطیر میں رہا روشن یہ گھر چراغ کی تصویر میں رہا اک شام اک ہجوم نگہ دیوار کے پیچ وہ دست ناز دست عناں گیر میں
اگر چہ دل کو کئی عکس نے گزند کیا اس آئنے کو نہ پامال بست و بند کیا نگاہ تیز سر شاخ نا شگفت رکھی چراخ کشتہ پہ دست طمع
میزان بد و نیک سے اک گوہر نایاب تلنے کے لیے اس دل آگاہ پہ آیا وہ جان اساطیر وہ اعراض اساطیر مجھ سے جو ملا وہ قصئہ کوتاہ پہ
اس سیل کار و کشت سے عالم ہلاک تھا لیکن مجھے بھی نشئہ پندار خاک تھا دل کر دیا ہے ناوک شب خیز پہ دو نیم کیا قصئہ کمان و
جست فنا کو بازی اموختہ کیے لایا ہوں اسپ عمر بر افروختہ کیے چوب خنک نہیں ہوں مگر عکس تیغ تیز چاہے ہے مجھ کو شعلئہ افروختہ کیے سیل تنگ
آئین انتقام سے آئینہ خانہ تھا میں تیغ بے نیام سے آینہ خانہ تھا کیا کیا نہ میری شہرت خوں ریز تھی کہ میں اس ناز کش کے نام سے
پرسش خنجر سفاک سے آمادہ کیا خود سے وحشی کو بھی فتراک سے آمادہ کیا جب مقابل وہ سرشت شرر ایجاد آئی التماس خس و خاشاک سے آمادہ کیا شعلہ
اک خشت اگر کنگرہ ایوان پہ رکھنا انگشت وزیر اور سر سلطان پہ رکھنا بس جوہر و شمشیر کی یکجائی سے بڑھ کر کیا اور گماں اس سر و سلطان
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ