جدھر کو جھوم کے مست شراب دیکھیں گے
جدھر کو جھوم کے مست شراب دیکھیں گے تمام زہد ریائی خراب دیکھیں گے بغور عالم ہستی پہ جب کریں گے نگاہ ہر ایک موج کو موج سراب دیکھیں گے
جدھر کو جھوم کے مست شراب دیکھیں گے تمام زہد ریائی خراب دیکھیں گے بغور عالم ہستی پہ جب کریں گے نگاہ ہر ایک موج کو موج سراب دیکھیں گے
ہر پردہ ہستی میں جب تو متشکل ہے حیراں ہوں ، میں جلوہ پھر کون سا باطل ہے صحرا ہے نہ بستی ہے ، دریا ہے نہ ساحل ہے جو
چلی کچھ ایسی مخالف ہوا زمانے کی نقاب اٹھاؤ ، بدل دو فضا زمانے کی نسی پھر اڑنے لگی عشق کے فسانے کی پناہ برق نے لی میرے آشیانے کی
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ