دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا
دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا بد نام کرنے آیا تھا بدنام کر گیا بیمار غم مسیح کو حیراں کر گیا اٹھا ، جھکا ، سلام کیا ،
دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا بد نام کرنے آیا تھا بدنام کر گیا بیمار غم مسیح کو حیراں کر گیا اٹھا ، جھکا ، سلام کیا ،
حیران نہ ہو دیکھ میں کیا دیکھ رہا ہوں بندے تری صورت میں خدا دیکھ رہا ہوں وہ اپنی جفاؤں کا اثر دیکھ رہے ہیں میں معنی تسلیم و رضا
فلک سے آج شور نعرہ مستانہ آتا ہے کوئی مے نوش بادل جانب میخانہ آتا ہے لحاظ خاطر احباب دیرینہ ہے اے زاہد چلوں کیا سوئے مسجد راہ میں میخانہ
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ