شکوں میں جو پایا ہے وہ گیتوں میں دیا ہے
اشکوں میں جو پایا ہے وہ گیتوں میں دیا ہے اس پر بھی سُنا ہے کہ زمانے کو گِلا ہے جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سنی
اشکوں میں جو پایا ہے وہ گیتوں میں دیا ہے اس پر بھی سُنا ہے کہ زمانے کو گِلا ہے جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سنی
بُجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبّتوں کے دیے جلا کے مِری وفا نے اجاڑ دی ہیں اُمید کی بستیاں بسا کے تُجھے بھلا دیں گے اپنے دل سے، یہ
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم لو! آج ہم نے توڑ دیا رشتۂِ اُمید لو! اب کبھی گلہ
لو اپنا جہاں دنیا والو ہم اس دنیا کو چھوڑنے چلے جو رشتے ناتے جوڑے تھے وہ رشتے ناتے توڑ چلے کچھ سُکھ کے سپنے دیکھ چلے کچھ دکھ کے
میں پَل دو پَل کا شاعر ہُوں پل دو پل میری کہانی ہے پل دو پل میری ہستی ہے پل دو پل میری جوانی ہے مجھ سے پہلے کتنے شاعر
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا ہم نے تو جب کلیاں مانگیں، کانٹوں کا ہار ملا خوشیوں کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے کہنے کو دل کی بات جنھیں ڈھونڈتے تھے ہم محفل میں آ گئے ہیں وہ
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے تیرا وجود ہے اب صرف داستاں کے لیے پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہو گا وہ شاخ ہی
بول نہ بول اے جانے والے، سن تو لے دیوانوں کی اب نہیں دیکھی جاتی ہم سے یہ حالت ارمانوں کی حُسن کے کھلتے پھول ہمیشہ بیدردوں کے ہاتھ بِکے
دیواروں کا جنگل جس کا آبادی ہے نام باہر سے چُپ چُپ لگتا ہے اندر ہے کہرام دیواروں کے اس جنگل میں بھٹک رہے ہیں انسان اپنے اپنے الجھے دامن
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ