حسن جب سے ہوا ہے کم آزار
حسن جب سے ہوا ہے کم آزار عشق بھی بن گیا ہے دنیا دار گو نہ غالب کو ہو ہمیں تو ہے ذوق آرائشِ سر و دستار عشق میں کھو
حسن جب سے ہوا ہے کم آزار عشق بھی بن گیا ہے دنیا دار گو نہ غالب کو ہو ہمیں تو ہے ذوق آرائشِ سر و دستار عشق میں کھو
دل حسن کو دان دے رہا ہوں گاہک کو دوکان دے رہا ہوں شاید کوئی بندہ خدا آئے صحرا میں اذان دے رہا ہوں ہر کہنہ یقین کو ازسر نو
ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں تجھے بھی کچھ بدلتا جا رہا ہوں نہ جانے تجھ کو بھولا ہوں کہ خود کو بہر صورت سنبھلتا جا رہا ہوں طبیعت
جناب دل کی بھی خوش فہمیاں بلا کی ہیں اسی سے داد کے طالب ہیں جس سے شاکی ہیں جو چپ رہے ہیں کبھی لب بناز خوش گوئی تو اس
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ