شکیب جلالی
شکیب جلالی (مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ ) (1) مجھے جب بھی شکیب جلالی کا خیال آتا ہے، ان کے خیال کے ساتھ ایک کتاب بھی
شکیب جلالی (مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ ) (1) مجھے جب بھی شکیب جلالی کا خیال آتا ہے، ان کے خیال کے ساتھ ایک کتاب بھی
سونے کا بت ہے کیا جو وہ لب کھولتا نہیں شامل ہے انجمن میں مگر بولتا نہیں ڈسوا دیا ہے ناگ سے اس جرم پر مجھے جیون میں دوسروں کے
میں خندہ لب ہی سہی ، مرا دل اداس تو ہے کہ اس نگر میں بجھی مشعلوں کی باس تو ہے میں اپنے چاک گریباں پہ مضمحل کیوں ہوں اس
سر رہ اب نہ یوں مجھ کو پکارو ، تم ہی آجاؤ ذرا زحمت تو ہو گی رازدارو، تم ہی آجاؤ کہیں ایسا نہ ہو دم توڑ دیں حسرت سے
یہ لطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے چلے تو آئے ہو تجدید دوستی کے لیے نحیف ضو کو عجب طرح تقویت دی ہے اندھیرے ڈھونڈ کے لائے ہو
یہ کرن ، پھول بالیاں ، جھمکے استعارے ہیں ماہ و انجم کے لالہ و گل ستارہ و مہتاب راز جو ہیں ترے تبسم کے بات پہنچی قیود محفل تک
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ