
آج کی شاعری
دشت میں مست پھرا ، مشک اڑا ، عام ہوا
دشت میں مست پھرا ، مشک اڑا ، عام ہوا سبز بستی کے غزالوں میں میرا نام ہوا ایک بعد کرن ایک چلی سوئے شفق اے رخ مہر ترا خون
دشت میں مست پھرا ، مشک اڑا ، عام ہوا سبز بستی کے غزالوں میں میرا نام ہوا ایک بعد کرن ایک چلی سوئے شفق اے رخ مہر ترا خون
سبز شیشے بیریوں کے بیریاں پنجاب کی چکنی شاخوں کی رگوں میں نیلی لہریں آب کی کیکروں نے سر پہ اوڑھی زرد سونے کی عبا زر گروں کی آنکھ میں
آنکھوں کا شور نور کی گنگا اتر گیا اس غم نے کاٹ کھایا کہ دل بے ہنر گیا گل مہر پہ خزاں نے لگائی ہے غم کی مہر تیتر کھنڈر
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ