وہ اس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے
وہ اس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے کبھی وہ خاص عنایت کہ سو گماں گزریں کبھی وہ طرز
وہ اس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے کبھی وہ خاص عنایت کہ سو گماں گزریں کبھی وہ طرز
حسن کو دل میں چھپا کر دیکھ دھیان کی شمع جلا کر دیکھو کیا خبر کوئی دفینہ مل جائے کوئی دیوار گرا کر دیکھو فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے
بیگانہ وار ان سے ملاقات ہو تو ہو اب دور دور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو مشکل ہے پھر ملیں کبھی یاران رفتگاں تقدیر ہی سے اب یہ
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی درد کے جھونکوں نے اب کی دل ہی ٹھنڈا کر دیا آگ برساتا
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا کیا ریاں دھول سے اٹی پائیں آشیانہ جلا ہوا دیکھا فاختہ سر نگوں ببولوں میں پھول کو
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ