ابراہیم ذوق
ابراہیم ذوق ” کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں ۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور
ابراہیم ذوق ” کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں ۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور
ہوئے انسان سب سوز محبت کے لیئے پیدا فرشتہ ہوتے گر ہوتے عبادت کے لیئے پیدا ذوق …………………………………………………….. کیوں کہہ کے مکرتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وقت پیری شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں پھر مجھے لے چلو ادھر دیکھو دل خانہ خراب کی باتیں واعظا چھوڑ ذکر نعمت خلد کر شراب و
بیمار عشق کا جو نہ تجھ سے ہوا علاج کہہ اے طبیب تو ہی کہ پھر تیرا کیا علاج مرتا ہوں انتظار میں کوئی بشر تو بھیج خط بھیج یا
ہے وہ آزار محبت سے دل زار کو رنج جس سے خود رنج کو آزار ہے آزار کو رنج دیدہ آبلہ پا کا یہی رونا ہے کہ نہ پہنچا ہو
اتارا تن سے سر تو نے تو اس شامت کے مارے کا ارے احسان مانوں سر سے میں تنکا اتارے کا ستارے دیکھ کر موتی تمہارے گوش وارے کا کہیں
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ