ہر شب ہے گزری یاد میں جس گل عذار کی
ہر شب ہے گزری یاد میں جس گل عذار کی یک روز لی خبر بھی نہ اس بیقرار کی کچھ کچھ نظر جو آتی ہے سیماب میں تڑپ سیکھی ہے
ہر شب ہے گزری یاد میں جس گل عذار کی یک روز لی خبر بھی نہ اس بیقرار کی کچھ کچھ نظر جو آتی ہے سیماب میں تڑپ سیکھی ہے
ہم جو شب کو ناگہاں اس شوخ کے پالے پڑے دل تو جاتا ہی رہا ، اب جان کے لالے پڑے ہجر میں رویا ہوں تیرے رات دن میں اس
ہر شب ہے گزری یاد میں جس گل عذار کی یک روز لی خبر بھی نہ اس بیقرار کی کچھ کچھ نظر جو آتی ہے سیماب میں تڑپ سیکھی ہے
شب کو ہماری ان سے ملاقات ہو گئی شکر خدا کہ ہم پہ عنایات ہو گئی آتے ہی میں نے اس کے کیا نزر نقد دل مہماں کی ہر طرح
گل کے ہونے کی توقع پہ جیے بیٹھی ہے ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں بلبل اب جان ہتھیلی
وہ وعدہ کر کے شب کو تو ہم سے نہاں رہے بولے سحر پھر آئیں گے ، خاطر نشاں رہے گر خیر خواہی آپ کو منظور ہے تو بس ایسا
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ