قصیدہ نگاری کا فن
قصیدہ نگاری کا فن قصیدہ ایک شاندار صنف سخن ہے اور اس کا ماضی بہت تابناک رہا ہے۔ سرزمین عرب پینز جہاں قصیدے نے آنکھیں کھولیں اس سے بہت کام
قصیدہ نگاری کا فن قصیدہ ایک شاندار صنف سخن ہے اور اس کا ماضی بہت تابناک رہا ہے۔ سرزمین عرب پینز جہاں قصیدے نے آنکھیں کھولیں اس سے بہت کام
مرزا محمد رفیع سودا مصحفی نے سودا کو قصیدے کا نقاش اول ، زبان کا حاکم، قصیدے اور ہنجو کا بادشاہ بتایا ہے اور محمد حسین آزاد نے قصیدہ نگاری
جس جا ترے ایما سے خداوند جہاں نے بخشی ہے ، اگر ایک گنہ گار کی تقصیر وہ جا ہے بلا شبہہ و شک عفو گہ اس کی جو خلق
ہمیں میں ملتی ہے بے شبہ اس صنم کی طرح ہے دود آہ جگر سوز زلف خم کی طرح ہمیں میں لوح و قلم ہے ، ہمیں میں کرسی و
کیفیت بہار ہے گلشن میں یاں تلک بلبل سے لے کے مست ہے اب باغباں تلک صحن چمن پہ پھرتے ہیں مستی سے لوٹتے لے کر ہوا کی موج سے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ