غزل
خواب کی کوکھ میں پلتے ہوئے رو پڑتے ہیں نیند میں پہلو بدلتے ہوئے رو پڑتے ہیں مجھ سے چھپ کر میرے کاندھوں کے فرشتے اکثر گھر کے آنگن میں
خواب کی کوکھ میں پلتے ہوئے رو پڑتے ہیں نیند میں پہلو بدلتے ہوئے رو پڑتے ہیں مجھ سے چھپ کر میرے کاندھوں کے فرشتے اکثر گھر کے آنگن میں
دل کے خانے میں پڑی ہیں تیری یادیں تہہ بہ تہہ وقت کی بنجر زمیں پر ہیں یہ قبریں تہہ بہ تہہ موت منزل ہے سو میں رستے میں پڑھنے
مولانا ابوالکلام آزاد مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں پڑھتے ہوئے ان کی پاکستان کے بارے میں کی گئی پیشگوئیاں نظر سے گزریں۔ ان میں سے تین اہم ترین
ہجوم ۔ یاس و الم دل جلانے لگتے ہیں تو ایسے حال میں پینے پلانے لگتے ہیں بھلا دیا تھا جنھیں دن کے شور و غل میں کہیں سکوت۔ شب
ترک, الفت کا سبب پوچھتے ہیں، بات یہ آپ عجب پوچھتے ہیں ، روک کر لطف و عنایت کی رسد مہرباں ہم سے طلب پوچھتے ہیں بھول جاتا ہوں پرانا
کون سوچا کرے کون دیکھا کرے چاندنی رات میں رقص کرتے ہوئے رنگ بھرتے ہوئے عشق کرتے ہوئے کون سوچا کرے کون سوچا کرے ایک مسکان کو دل بیابان کو
زندگی کے بے کیف کینوس پر ایک زخم خوردہ غزال آسیبوں کے جنگل میں اپنی نم آلودہ آنکھوں سے اپنے بے یقین کانوں سے موت کی ندی میں لہروں کا
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار
یہاں جو ہے اپنا پرستار ہے محبت سے کس کو سروکار ہے کبھی خواب میں بھی لگایا نہ ہاتھ یہ بندہ تمہارا گنہگار ہے سخن ساز خاموش رہنا بھی سیکھ
یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضور ص کی ثنا تو پھر حضور ص کی ثنا ہوئی ہر ایک حرف نعت کا سوال بن کے رہ